دین و شریعت کی بنیادیں اور فقہی اصول و ضابطے ۔ قرآن کی روشنی میں |
|
واضح کرنے کے لیے چند سطور لکھی جاتی ہیں ۔ باہمی فتنوں اور جھگڑوں کے وقت جو صورتیں دنیا میں پیش آیا کرتی ہیں ان سے کوئی اہل بصیرت و تجربہ غافل نہیں ہوسکتا یہاں بھی صورت یہ پیش آئی کہ مدینہ سے آئے ہوئے صحابۂ کرام کی معیت میں حضرت صدیقہ کے سفر بصرہ کو منافقین اور مفسدین نے حضرت امیر المؤمنین علی مرتضیٰ کے سامنے صورت بگاڑ کر اس طرح پیش کیا کہ یہ سب اس لیے بصرہ جارہے ہیں کہ وہاں سے لشکر ساتھ لے کر آپ کا مقابلہ کریں ، اگر آپ امیر وقت ہیں تو آپ کا فرض ہے کہ اس فتنہ کوآگے بڑھنے سے پہلے وہیں جاکر روکیں ، حضرت حسن و حسین وعبداللہ بن جعفر، عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہم جیسے صحابہ کرام نے اس رائے سے اختلاف بھی کیا اور مشورہ یہ دیا کہ آپ ان کے مقابلہ پر لشکر کشی اس وقت تک نہ کریں جب تک صحیح حال معلوم نہ ہوجائے، مگر کثرت دوسری طرف رائے دینے والوں کی تھی، حضرت علی کرم اللہ وجہہ بھی اسی طرف مائل ہوکر لشکر کے ساتھ نکل آئے، اور یہ شریر اہل فتنہ وبغاوت بھی آپ کے ساتھ نکلے۔ جب یہ حضرات بصرہ کے قریب پہنچے تو حضرت قعقاع کو ام المومنین کے پاس دریافت حال کے لیے بھیجا، انہوں نے عرض کیا کہ ام المومنین آپ کے یہاں تشریف لانے کا کیا سبب ہوا، تو صدیقہؓ نے فرمایا ’’ای بنی الإصلاح بین الناس‘‘ یعنی میرے پیارے بیٹے! میں اصلاح بین الناس کے ارادہ سے یہاں آئی ہوں ۔ پھر حضرت طلحہؓ اور زبیرؓ کو بھی قعقاع کی مجلس میں بلالیا ، قعقاع نے اس سے پوچھا کہ آپ کیا چاہتے ہیں ؟ انہوں نے فرمایا کہ قاتلان عثمان پر حد شرعی جاری کرنے کے سوا ہم کچھ نہیں چاہتے، حضرت قعقاع نے سمجھایا کہ یہ کام تو اس وقت تک نہیں ہوسکتا جب تک مسلمانوں کی جماعت منظم اور مستحکم نہ ہوجائے، اس لیے آپ حضرات پر لازم ہے کہ اس وقت آپ مصالحت کی صورت اختیار کرلیں ۔