دین و شریعت کی بنیادیں اور فقہی اصول و ضابطے ۔ قرآن کی روشنی میں |
|
ہے۔ قرآن کریم کے اس جملہ نے سب کو ایک واضح حکمت کا سبق دیا کہ ان میں سے کوئی چیز متقدا اور پیشوا بنانے کے لیے ہرگز کافی نہیں ، بلکہ ہر انسان پر سب سے پہلے تو یہ لازم ہے کہ اپنی زندگی کا مقصد اور اپنے سفر کا رخ متعین کرے پھر اس مقصد کو حاصل کرنے کے لیے یہ دیکھے کہ کون ایسا انسان ہے جو اس مقصد کا راستہ جاننے والا بھی ہو، اور اس راستہ پر چل بھی رہا ہو، جب کوئی ایسا انسان مل جائے تو بے شک اس کے پیچھے لگ لینا اس کو منزل مقصود پر پہنچاسکتا ہے۔ یہی حقیقت ہے ائمہ مجتہدین کی تقلید کی کہ وہ دین کو جاننے والے بھی ہیں ، اور اس پر عمل پیر ابھی ، اس لیے نہ جاننے والے ان کا اتباع کرکے دین کے مقصد یعنی اتباع خدا اور رسولؐ کو حاصل کرسکتے ہیں ۔ (معارف القرآن ۳؍۲۴۹، مائدہ)تقلید کی حقیقت اور مطلق تقلید کا وجوب آیت مذکور ہ کا یہ جملہ: ’’فَاسْئَلُوْا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لَا تَعْلَمُوْنَ‘‘۔ (سورۂ نحل پ۱۴) اس جگہ اگر چہ ایک خاص مضمون کے بارے میں آیا ہے مگرا لفاظ عام ہیں جو تمام معاملات کو شامل ہیں ، اس لیے قرآنی اسلوب کے اعتبارسے در حقیقت یہ اہم ضابطہ ہے جو عقلی بھی ہے، اورنقلی بھی، کہ جو لوگ یہ احکام نہیں جانتے وہ جاننے والوں سے پوچھ کر عمل کریں ، اورنہ جاننے والوں پر فرض ہے کہ جاننے والوں کے بتلانے پر عمل کریں اسی کا نام تقلید ہے۔ یہ قرآن کا واضح حکم بھی ہے، اورعقلاً بھی اس کے سوا عمل کو عام کرنے کی کوئی صورت نہیں ہوسکتی، امت میں عہد صحابہ سے لے کر آج تک بلااختلاف اسی ضابطہ پر عمل ہوتا آیا ہے، جو تقلید کے منکر ہیں ، وہ بھی اس تقلید کا انکار نہیں کرتے کہ جو لوگ عالم نہیں وہ علماء سے فتویٰ لے کر عمل کریں ، اور یہ ظاہر ہے کہ ناواقف عوام کو علماء اگر قرآن و حدیث کے دلائل بتلا بھی دیں تو وہ ان دلائل کو بھی انہی علماء کے اعتماد پر قبول