دین و شریعت کی بنیادیں اور فقہی اصول و ضابطے ۔ قرآن کی روشنی میں |
|
حجیت حدیث کی تیسری دلیل ’’یُرِیْدُوْنَ اَنْ یُبَدِّلُوْا کَلَامَ اللّٰہِ‘‘۔ (سورۂ فتح پ:۲۶) علماء نے فرمایا کہ یہ تخصیص اہل حدیبیہ کا وعدہ جو اللہ تعالیٰ نے ذکر فرمایا ہے اس کا قرآن میں کہیں صراحۃً ذکر نہیں ، بلکہ یہ تخصیص اہل حدییبہ کا وعدہ اللہ تعالیٰ نے وحی غیرمَتلُوْ کے ذریعہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سفر حدیبیہ میں فرمایا تھا، اسی کو اس جگہ کلام اللہ اور قال اللہ کے الفاظ سے تعبیر فرمایا ہے، اس سے معلوم ہوا کہ علاوہ احکام قرآن کے جو احکام احادیث صحیحہ میں مذکور ہیں ،وہ بھی حسب تصریح اس آیت کے کلام اور قول اللہ میں داخل ہیں جو ملحدین احادیث رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو حجت دین نہیں مانتے، یہ آیتیں ان کے الحاد کو کھولنے کے لیے کافی ہیں ۔ رہا یہ معاملہ کہ اسی سورت میں جو سفر حدییبہ کے شروع میں نازل ہوئی ہے یہ الفاظ قرآن میں موجود ہیں ’’اَثَابَہُمْ فَتْحًا قَرِیْباً‘‘ اور باتفاق مفسرین یہاں فتح قریب سے فتح خیبر مراد ہے، تو اس طرح قرآن میں فتح خیبر کا اور اس کے غنائم اہل حدیبیہ کو ملنے کا وعدہ آگیا وہی اس لفظ کلام اللہ اور قال اللہ کی مراد ہوسکتی ہے تو حقیقت یہ ہے کہ اس آیت میں غنیمت کا وعدہ تو ہے مگر اس کا کہیں ذکر نہیں کہ یہ غنیمت اہل حدیبیہ کے ساتھ مخصوص ہوگی، دوسرے اس میں شریک نہ ہوسکیں گے یہ تخصیص تو بلا شبہ حدیث رسول ہی سے معلوم ہوئی ہے، وہی کلام اللہ اور قال اللہ کا مصداق ہے۔ اور بعض حضرات نے جوسورۃ توبہ کی آیت کو اس کا مصداق قرار دیا ہے ’’فَاسْتَاذَنُوْکَ۔ الخ‘‘ تو اس لیے صحیح نہیں کہ یہ آیات غزوۂ تبوک کے متعلق آئی ہیں اور وہ غزوہ خیبر کے بعد ۹ھ میں ہوا ہے۔ (قرطبی وغیرہ) (معارف القرآن ۸؍۷۷)