دین و شریعت کی بنیادیں اور فقہی اصول و ضابطے ۔ قرآن کی روشنی میں |
|
اور اسی فتنے کے آخر میں جب کہ حضرت علی اور معاویہ رضی اللہ عنہما کے درمیان میدان جنگ گرم تھا ، روم کی عیسائی سلطنت کی طرف سے موقع پا کر حضرت معاویہؓ کو اپنے ساتھ ملانے اور ان کی مدد کرنے کا پیغام ملا، تو حضرت معاویہؓ کا جواب یہ تھا کہ ہمارے اختلاف سے دھوکہ نہ کھاؤ، اگر تم نے مسلمانوں کی طرف رُخ کیا تو علی کے لشکرکا پہلا سپاہی ، جو تمہارے مقابلے کے لیے نکلے گا وہ معاویہ ہوگا، معلوم یہ ہوا کہ باہمی اختلاف جو منافقین کی گہری سازشوں سے تشدد کارُخ اختیار کرچکا تھا، اس میں بھی اسلام کے بنیادی حقائق کسی کی نظر سے اوجھل نہیں ہوئے۔ خلاصہ کلام یہ ہے کہ تعبیر کتاب و سنت کے ماتحت اختلاف رائے جو صحابہ و تابعین اور ائمہ مجتہدین میں رہا ہے تو بلاشبہ رحمت ہی ہے اس کا کوئی پہلو نہ مسلمانوں کے لیے مضر ثابت ہوا، اور نہ آج ہوسکتا ہے، بشرطیکہ وہ انہیں حدود کے اندر رہے، جن میں ان حضرات نے رکھا تھا کہ ان کا اثر نماز، جماعت، امامت اور معاشرت کے کسی معاملے پر نہ پڑتا تھا۔ (اختلاف امت پر ایک نظر ملحقہ جواہر الفقہ ۱؍۴۴۲) اسلام میں مشورہ کی تکریم اورتاکید فرمانے کا یہی منشاء ہے کہ معاملہ کے متعلق مختلف پہلو اور مختلف آراء سامنے آجائیں تو فیصلہ بصیرت کے ساتھ کیا جاسکے، اگر اختلاف رائے مذموم سمجھا جائے تو مشورہ کا فائدہ ہی ختم ہوجاتا ہے۔ (وحدت امت، جواہر الفقہ ۱؍۳۹۸)صحابہ و تابعینؒمیں اختلافِ رائے اور اس کا درجہ انتظامی اور تجرباتی امور میں تو اختلاف رائے خود رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے عہد مبارک میں آپ کی مجلس میں بھی ہوتا رہا اور خلفائے راشدین اور عام صحابۂ کرامؓ کے عہد میں امور انتظامیہ کے علاوہ جب نئے نئے حوادث اور شرعی مسائل پیش آئے جن کا قرآن و حدیث میں صراحۃً ذکر نہ تھا یا قرآن کی ایک آیت کا دوسری آیت سے یا ایک