دین و شریعت کی بنیادیں اور فقہی اصول و ضابطے ۔ قرآن کی روشنی میں |
|
بعد مریض کا حال بدلے گا اس وقت مجھے دوسری دوا تجویز کرنی ہوگی، یہ سب کچھ جانتے ہوئے وہ پہلے دن اپنی دوا تجویز کرتا ہے، جو اس دن کے مناسب ہے دو دن کے بعد حالات بدلنے پر دوسری دوا تجویز کرتا ہے۔ ماہر حکیم یا ڈاکٹر یہ بھی کرسکتا ہے کہ پہلے ہی دن پورے علاج کا نظام لکھ کر دے دے کہ دو روز تک یہ دوا استعمال کرو، پھر تین روز تک دوسری دوا، پھر ایک ہفتہ فلانی دوا لیکن یہ مریض کی طبیعت پر بے وجہ کا ایک بار بھی ڈالنا ہے۔ اس میں غلط فہمی کی وجہ سے عملی خلل کا بھی خطرہ ہے۔ اس لیے وہ پہلے ہی سے سب تفصیلات ہمیں نہیں بتلاتا، اللہ جل شانہ کے احکام میں اور اس کی نازل کی ہوئی کتابوں میں صرف یہی آخری صورت نسخ کی ہوسکتی ہے اور ہوتی رہی ہے ہر آنے والی نبوت اور ہر نازل ہونے والی کتاب نے پچھلی نبوت اور کتاب کے بہت سے احکام کو منسوخ کرکے نئے احکام جاری کئے، قرآن و سنت میں نسخ کے وجود وقوع کے متعلق صحابہ و تابعین کے اتنے آثار و اقوال موجود ہیں جن کو نقل کرنا مشکل ہے، تفسیر ابن جریر، ابن کثیر، در منثور، وغیرہ میں اسانید قویہ صحیحہ کے ساتھ بھی بہت سی روایات مذکور ہیں اور روایات ضعیفہ کا تو شمار نہیں اس لیے امت میں یہ مسئلہ ہمیشہ اجماعی رہا ہے، صرف ابو مسلم اصفہانی اور چند معتزلہ نے وقوع نسخ کا انکار کیا ہے جن پر امام رازیؒ نے تفسیر کبیر میں شرح و بسط کے ساتھ رد کیا ہے۔ (معارف القرآن جلد۱، سورۂ بقرہ)احکام شرعیہ کے منسوخ ہونے کی حقیقت دنیا کی حکومتیں یا ادارے جو اپنے قوانین میں ترمیم و تنسیخ کرتے رہتے ہیں اس کی بیشتروجہ تو یہ ہوتی ہے کہ تجربے کے بعد کوئی نئی صورت حال سامنے آتی ہے جو پہلے سے معلوم نہ تھی تو اس صورتِ حال کے مطابق پہلے حکم کو منسوخ کرکے دوسرا حکم جاری