دین و شریعت کی بنیادیں اور فقہی اصول و ضابطے ۔ قرآن کی روشنی میں |
|
نماز روزہ میں شریک بھی ہو، مگر جب تک وہ قرآن کے اس بتلائے ہوئے معیار کے مطابق ایمان نہیں لائے گا اس وقت تک وہ قرآن کی اصطلاح میں مومن نہیں کہلائے گا۔ (معارف القرآن، ۱؍۱۲۸)اہل قبلہ کو کافر نہیں کہا جائے گا، اس کا مطلب حدیث و فقہ کا مشہور مقولہ کہ ’’ اہل قبلہ کو کافرنہیں کہا جاسکتا، اس کا مطلب بھی آیت مذکورہ کے تحت میں یہ متعین ہوگیا کہ اہل قبلہ سے مراد صرف وہ لوگ ہیں جو ضروریات دین میں سے کسی چیز کے منکر نہیں ، ورنہ یہ منافقین بھی تو قبلہ کی طرف سب مسلمانوں کی طرح نماز پڑھتے تھے مگر یہ صرف روبقبلہ نماز پڑھنا ان کے ایمان کے لیے اس بناء پرکافی نہ ہوا کہ ان کا ایمان صحابۂ کرام کی طرح تمام ضروریاتِ دین پر نہیں تھا۔ (معارف القرآن ۱؍۱۲۸، سورۂ بقرہ)الحاد و زندقہ کی تعریف اور اس کا حکم ’’اِنَّ الَّذِیْنَ یُلْحِدُوْنَ فِیْ اٰیَاتِنَا‘‘ ۔ (سورۂ حم السجدہ) اس سے پہلی آیات میں ان منکرین توحید ورسالت کو زجر وتنبیہ اور ان کے عذاب کا ذکر تھا جو رسالت و توحید کا کھل کر صاف انکار کرتے تھے، یہاں سے انکار کی ایک خاص قسم کا ذکر کیا جاتا ہے جس کا نام الحاد ہے۔ لحد اور الحاد کے لغوی معنی ایک طرف مائل ہونے کے ہیں ، قبر کی لحد کو بھی اسی لیے لحد کہتے ہیں ، کہ وہ ایک طرف مائل ہوتی ہے۔ قرآن و حدیث کی اصطلاح میں آیات قرآنی سے عدول و انحراف کو الحاد کہتے ہیں ۔ لغوی معنی کے اعتبار سے تویہ عام ہے صراحۃً کھلے طور پر انکار و انحراف کرے یا تاویلات فاسدہ کے بہانہ سے انحراف کرے۔ لیکن عام طور سے الحاد ایسے انحراف کو کہتے ہیں کہ ظاہر میں تو قرآن اور اس کی آیات پر ایمان و تصدیق کا دعویٰ کرے مگر ان کے