دین و شریعت کی بنیادیں اور فقہی اصول و ضابطے ۔ قرآن کی روشنی میں |
|
یا شراب یا گھر کرایہ پر لے کر اس میں صرف سکونت کرے گا، یا کوئی ناجائز کام فسق و فجور کا کرے گا۔ اس صورت میں یہ بیع و اجارہ بلا کر اہت جائز ہے۔ اورا گر اس کو علم ہے کہ یہ شخص شیرہ انگور خرید کر شراب بنائے گایا مکان کرایہ پر لے کر فسق و فجور کرے گا یا سودی کاروبار کرے گا یا جاریہ کو خرید کر اس کو گانے کے کام میں لگائے گا، یا امرد کو خرید کر اس سے سیاہ کاری میں مبتلا ہوگا یا لوہا خرید کر مسلمانوں کے خلاف استعمال کرے گا۔ اس صورت میں یہ بیع و اجارہ مکروہ ہے۔ (جواہر الفقہ ص:۴۵۵ ج:۲ ، قدیم)امام صاحب و صاحبین کا اختلاف اسی صورت میں حضرت امام صاحب و صاحبین کا اختلاف منقول ہے مگر اس میں جو امام صاحب کی طرف قول جواز منقول ہے اس کا وہی مطلب ہے جوسوال میں بحوالہ خلاصۃ الفتاویٰ نقل کیا ہے، اب اگر حضرات صاحبین اس عقد ہی کو جائز قرار نہیں دیتے تو اختلاف حقیقی ہوگیا کہ ان کے نزدیک عقد ہی درست نہیں اور متعاقدین کے لیے بیع وثمن میں تصرف حلال نہیں اور امام صاحب کے نزدیک عقد درست مگر گناہ ہے، اور اگر صاحبین کا قول عدم جواز کا حاصل بھی صرف ارتکاب گناہ ہے فساد عقد نہیں ، تو پھر یہ اختلاف صرف لفظی ہوگا کہ صاحبین نے ناجائز قرار دیا بمعنی الاثم والمعصیت اور امام صاحب نے جائز قرار دیا بمعنی جواز عقد نہ کہ بمعنی رفع اثم۔ (جواہر الفقہ ص:۴۵۵ ج:۲ ، قدیم)کراہت تنزیہی و تحریمی کا مدار پھر اس مکروہ کی بھی دو قسمیں ہیں ، ایک یہ کہ معصیت اس کے عین کے ساتھ متعلق ہو بغیر کسی تغیر اور تصرف کے دوسرے یہ کہ کچھ تصرف تغیر کے بعد وہ معصیت کے کام میں آئے پہلی صورت مکروہ تحریمی ہے۔