دین و شریعت کی بنیادیں اور فقہی اصول و ضابطے ۔ قرآن کی روشنی میں |
|
ان کو اس سے غفلت نہ ہونی چاہئے کہ ان کا کچھ وقت خلوت میں توجہ الی اللہ اور ذکر اللہ کے لیے بھی مخصوص ہونا چاہئے جیسا کہ علماء سلف کی سیرتیں اس پر شاہد ہیں ، اس کے بغیر تعلیم و تبلیغ بھی مؤثر نہیں ہوتی ان میں نور و برکت نہیں ہوتی۔ (معارف القرآن ۸؍۷۷۳)اہل علم وارباب افتاء ومقتدا حضرات کو بھی ذکر وعبادت کا خاص اہتمام کرنا چاہئے اِنَّ لَکَ فِی النَّہَارِسَبْحًاطَوِیْلاً ۔(سورہ مزمل پ۲۹) لفط سبح کے لفظی معنی جاری ہونے اورگھومنے پھرنے کے ہیں اسی سے پانی میں تیرنے کو بھی سبح اور سباحت کہا جاتا ہے کہ پانی میں بغیر کسی رکاوٹ کے گھومنا پھرنا تیراکی کے ساتھ آسان ہے ،یہاں مراد سبح سے دن بھر کے مشاغل ہیں جن میں تعلیم وتبلیغ اور اصلاحِ خلق کے لئے یا اپنی معاشی مصالح کے لئے چلنا پھرنا سب داخل ہیں ۔ اس آیت میں قیام اللیل کے حکم کی تیسری حکمت ومصلحت کا بیان ہے، یہ بھی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اور پوری امت کے لئے عام ہے وہ یہ کہ دن میں تورسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور اسی طرح دوسرے سبھی حضرات کو بہت سے مشاغل چلنے پھرنے کے رہتے ہیں ،فراغ بالی سے عبادت میں توجہ مشکل ہوتی ہے، رات کا وقت اس کام کے لئے رہنا چاہئے کہ بقدر ضرورت نیند اور آرام بھی ہوجائے اور قیام اللیل کی عبادت بھی ۔فائدہ: حضرات فقہاء نے فرمایا کہ اس آیت سے ثابت ہوتا ہے کہ علماء ومشائخ جو تعلیم وتربیت اور اصلاحِ خلق کی خدمتوں میں لگے رہتے ہیں ان کو بھی چاہئے کہ یہ کام دن ہی تک محدود رہنے چاہئیں ،رات کا وقت اللہ تعالیٰ کے حضور حاضری اور عبادت کے لئے فارغ رکھنا بہتر ہے جیسا کہ علمائے سلف کا تعامل اس پر شاہد ہے، کوئی وقتی ضرورت دینی تعلیمی، تبلیغی کبھی اتفاقاً رات کو بھی اس میں مشغول رکھنے کی داعی ہو تو وہ