دین و شریعت کی بنیادیں اور فقہی اصول و ضابطے ۔ قرآن کی روشنی میں |
|
بقدر ضرورت مستثنیٰ ہے ،اس کی شہادت بھی بہت سے حضرات علماء وفقہاء کے عمل سے ثابت ہے ۔ (معار ف القرآن ج۸ ص۵۹۲،۵۹۳ سورۃ مزمل)اِتَّقُوْا مَوَاضِعَ التُّہَم تہمت وبدنامی کے موقعوں سے بچنا بھی ضروری ہے صحیحین میں حضرت انس رضی اللہ عنہ کی حدیث ہے کہ ایک مرتبہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مسجد میں معتکف تھے، ایک رات میں ام المؤمنین حضرت صفیہ ؓ آپ کی زیارت کے لئے مسجد میں گئیں واپسی کے وقت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ان کے ساتھ ہوئے ،گلی میں دوانصاری صحابی سامنے آگئے تو آپ نے آواز دے کر فرمایا ،ٹھیرو میرے ساتھ صفیہ بنت حییٔ ہیں ،ان دونوں نے بکمال ادب عرض کیا سبحان اللہ یارسول اللہ!(یعنی کیا آپ نے ہمارے بارے میں یہ خیال کیا کہ ہم کوئی بدگمانی کریں گے؟) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ بیشک کیونکہ شیطان انسان کے خون کے ساتھ اس کی رگ وپے میں اثر انداز ہوتا ہے ، مجھے یہ خطرہ ہوا کہ کہیں شیطان تمہارے دلوں میں کوئی وسوسہ بدگمانی کا پیدا نہ کرے (اس لئے میں نے بتلادیا کہ کوئی غیر عورت میرے ساتھ نہیں )۔فائدہ: جیسا کہ خود برے کا موں سے بچنا انسان کے لئے ضروری ہے اسی طرح مسلمانوں کو اپنے بارے میں بدگمانی کا موقع دینا بھی درست نہیں ،ایسے مواقع سے بچنا چاہئے جس سے لوگوں کے دلوں میں بدگمانی پیدا ہوتی ہواور کوئی ایسا موقع آجائے تو بات واضح کرکے تہمت کے مواقع کوختم کردینا چاہئے ،خلاصہ یہ ہے کہ اس حدیث نے شیطانی وسوسہ کا بڑا خطرناک ہونا ثابت کیا ہے جس سے بچنا آسان نہیں بجز خد کی پناہ کے۔تنبیہ: یہاں جس وسوسہ سے ڈرایاگیا ہے اس سے مراد وہ خیال ہے جس میں انسان باختیار خود مشغول ہو ،اور غیر اختیاری وسوسہ وخیال جودل میں آیا اور گزرگیا وہ کچھ