دین و شریعت کی بنیادیں اور فقہی اصول و ضابطے ۔ قرآن کی روشنی میں |
|
دیتے بلکہ ان کے کلام کا کوئی صحیح محمل تلاش کرکے لکھ دیتے۔ مثلاً اوزان شرعیہ میں رائج الوقت اوزان کے لحاظ سے ’’درہم‘‘ کی مقدار مقرر کرنے میں آپ نے حضرت مولانا عبدالحی لکھنوی جیسے بڑے محقق عالم سے اختلاف فرمایا لیکن اس کے لیے صرف اپنے دلائل اور حضرت مولانا کے دلائل کی تردید پر اکتفا نہیں کیا بلکہ جستجو کرکے وہ وجہ بھی بیان فرمادی، جس سے حضرت مولانا کا عذر واضح ہوجاتاہے۔ (البلاغ ص:۴۹۶)طعن و تشنیع ودلآزار اسلوب کا نقصان حضرت والد صاحب فرماتے تھے کہ میں آغاز شباب میں دوسروں کی تردید کے لیے بڑی شوخ اور چلبلی تحریر لکھنے کا عادی تھا اور تحریری مناظروں میں میرا طرز تحریر طنز و تعریض سے بھرپورہوتا تھا اور ’’ختم نبوت‘‘ میں نے اسی زمانہ میں لکھی تھی لیکن اس کے شائع ہونے کے بعد ایک واقعہ ایسا پیش آیا جس نے میرے انداز تحریر کا رخ بدل دیا اور وہ یہ کہ میرے پاس ایک قادیانی کا خط آیا جس میں اس نے لکھا تھا کہ آپ نے اپنی کتاب ختم نبوت میں جو دلائل پیش کئے ہیں ، بنظر انصاف پڑھنے کے بعد وہ مجھے بہت مضبوط معلوم ہوتے ہیں اس کا تقاضا یہ تھا کہ میں مرزا صاحب کی اتباع سے تائب ہوجاؤں لیکن آپ نے اس کتاب میں جو اسلوب بیان اختیار کیا ہے وہ مجھے اس اقدام سے روکتا ہے میں سوچتا ہوں کہ جو لوگ حق پر ہوتے ہیں وہ لوگ دلائل پر اکتفا کرتے ہیں ، طعن و تشنیع سے کام نہیں لیتے، اس لیے میں اب تک اپنے مذہب پر قائم ہوں اور آپ کے طعن وتشنیع نے دل میں کچھ ضد بھی پیدا کردی ہے۔ حضرت والد صاحبؒ فرماتے تھے کہ یہ تو معلوم نہیں کہ ان صاحب نے یہ بات کہاں تک درست لکھی تھی لیکن اس واقعہ سے مجھے یہ تنبہ ضرور ہوا کہ طعن و تشنیع کا یہ انداز