دین و شریعت کی بنیادیں اور فقہی اصول و ضابطے ۔ قرآن کی روشنی میں |
|
بیٹھے، جس کا ثبوت قرآن مجید کی نص صریح سے ہو یا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے بطریق تواتر ثابت ہوا ہو، یہ صورت بھی باجماع امت ارتداد میں داخل ہے اگر چہ اس ایک حکم کے سوا تمام احکام اسلامیہ پر شدت کے ساتھ پابند ہو۔ ارتداد کی اس دوسری صورت میں اکثر مسلمان غلطی میں مبتلا ہوجاتے ہیں ، اور ایسے لوگوں کو مسلمان سمجھتے ہیں ، اور یہ اگر چہ بظاہر ایک سطحی اور معمولی غلطی ہے لیکن اگر اس کے ہولناک نتائج پرنظر کی جائے تو اسلام اور مسلمان کے لیے اس سے زیادہ کوئی چیز مضر نہیں ، کیونکہ اس صورت میں کفرواسلام کے حدود ممتاز نہیں رہتے کافرومومن میں کوئی امتیاز نہیں رہتا۔ اسلام کے چالاک دشمن اسلامی برادری کے ارکان بن کر مسلمانوں کے لیے ’’مار آستین‘‘ بن سکتے ہیں اور دوستی کے لباس میں دشمنی کی ہر قرار داد کو مسلمانوں میں نافذ کرسکتے ہیں ۔ اس لیے مناسب معلوم ہوا کہ اس صورت ارتداد کی توضیح کسی قدر تفصیل کے ساتھ کردی جائے اور چونکہ ارتداد کی صحیح حقیقت ایمان کے مقابلہ ہی سے معلوم ہوسکتی ہے اس لیے پہلے اجمالاً ایمان کی تعریف اور پھر ارتداد کی حقیقت لکھی جاتی ہے۔ایمان وارتداد کی تعریف ایمان کی تعریف مشہور و معروف ہے جس کے اہم جزو دو ہیں ، ایک حق سبحانہ و تعالیٰ پر ایمان لانا، دوسرے اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم پر۔ لیکن جس طرح اللہ تبارک و تعالیٰ پر ایمان کے یہ معنی نہیں کہ صرف اس کے وجود کا قائل ہوجائے بلکہ اُس کی تمام صفاتِ کاملہ علم ، سمع، بصر، قدرت وغیرہ کو اُسی شان کے ساتھ ماننا ضروری ہے جو قرآن وحدیث میں بتلائی ہیں ، ورنہ یوں تو ہر مذہب وملت کا آدمی خدا کے وجود وصفات کو مانتا ہے، یہودی، نصرانی، مجوسی، ہندو سب ہی اس پر متفق ہیں ۔ اسی طرح رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان لانے کا بھی یہ مطلب نہیں ہوسکتا