دین و شریعت کی بنیادیں اور فقہی اصول و ضابطے ۔ قرآن کی روشنی میں |
|
کفرو نفاق کی تعریف جب اسلام یعنی ظاہری ا قرار و فرمانبرداری کے ساتھ دل میں ایمان نہ ہو تو اس کو قرآن کی اصطلاح میں نفاق کا نام دیا گیا ہے اور اس کو کھلے کفر سے زیادہ شدید جرم ٹھہرایا ہے: ’’اِنَّ الْمُنَافِقِیْنَ فِیْ الدَّرْکِ الْاَسْفَلِ مِنَ النَّارِ‘‘۔ (سورۂ نساء پ:۵) یعنی منافقین جہنم کے سب سے نیچے کے طبقہ میں رہیں گے۔ اسی طرح ایمان یعنی تصدیق قلبی کے ساتھ اگر اقرار واطاعت نہ ہو تو اس کوبھی قرآنی نصوص میں کفر ہی قرار دیا ہے ارشاد ہے ’’یَعْرِفُوْنَہٗ کَمَا یَعْرِفُوْنَ اَبْنَاؤَہُمْ‘‘ یعنی یہ کفار رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کی حقانیت کو ایسے ہی یقینی طریق پر جانتے ہیں جیسے اپنے بیٹوں کو جانتے ہیں اور دوسری جگہ ارشاد ہے: ’’جَحَدُوْا بِہَا وَاسْتَیْقَنَتْہَا اَنْفُسُہُمْ ظُلْمًا وَّعُلُوًّْا‘‘۔ (پ:۱۹ ، نمل آیت نمبر:۱۴) یعنی یہ لوگ ہماری آیات کا انکار کرتے ہیں حالانکہ ان کے دلوں میں ان کا یقین کامل ہے اور ان کی یہ حرکت محض ظلم و تکبرکی وجہ سے ہے۔ میرے استاذ محترم حضرت العلام سید محمد انور شاہ کشمیری رحمۃ اللہ علیہ اس مضمون کو اس طرح بیان فرماتے تھے کہ ایمان اوراسلام کی مسافت ایک ہے فرق صرف ابتداء وانتہاء میں ہے، یعنی ایمان قلب سے شروع ہوتا ہے اور ظاہر عمل پر پہنچ کر مکمل ہوتا ہے اورا سلام ظاہر عمل سے شروع ہوتا ہے اور قلب پر پہنچ کر مکمل سمجھاجاتا ہے، اگر تصدیق قلبی ظاہر اقرار واطاعت تک نہ پہنچے وہ تصدیق ایمان معتبر نہیں ۔ امام غزالیؒ اور امام سبکیؒ کی بھی یہی تحقیق ہے اور امام ابن ہمام نے مسامرہ میں اسی تحقیق پر تمام اہل حق کا اتفاق ذکر کیا ہے۔ (معارف القرآن ص:۱۰۲، سورہ بقرہ پ۱)