دین و شریعت کی بنیادیں اور فقہی اصول و ضابطے ۔ قرآن کی روشنی میں |
|
سبب قریب درجہ اول کا قرار دے کر حرام کردیا اس حکم حرمت کے بعد وہ سب کے لیے مطلقاً حرام ہے، خواہ ابتلاء گناہ کا سبب بنے یا نہ بنے، اب وہ خود ایک حکم شرعی ہے جس کی مخالفت حرام ہے۔ (معارف القرآن ۷؍۲۰۷)اعانت علی المعصیت کے حدود اعانت علی المعصیت اور تسبب للمعصیۃ کے مختلف درجات ہیں اور اسی وجہ سے احکام بھی مختلف ہیں ۔ مختصر خلاصہ یہ ہے کہ کسی معصیت کی اعانت جواز روئے قرآن حرام ہے، وہ ہے جس میں معصیت کا مقصد و نیت حقیقۃً یا حکماً شامل ہو حقیقۃً یہ کہ دل میں یہ ہو کہ اس کے ذریعہ عمل معصیت کیا جائے، یا یہ کہ صلب عقد میں احد المتعاقدین کی طرف سے اس معصیت کی تصریح آجائے۔ اور حکماً یہ ہے کہ وہ چیز بجز معصیت کے کسی دوسرے کام میں آتی ہی نہ ہو جیسے آلات معازف، طبلہ، سارنگی اور مختلف قسم کے آلات و موسیقی ان چیزوں کا بنانا اور بیچنا اگر چہ مقصد معصیت نہ ہو مگر حکما وہ بھی قصد معصیت میں داخل ہے، اور جہاں کسب معصیت نہ حقیقۃً ہو نہ حکماً وہ اعانت علی المعصیت میں داخل نہیں ۔ (جواہر الفقہ ۲؍۴۵۳ قدیم)تسبّب للمعصیۃ کے حدود البتہ اعانت سے ملتی جلتی ایک اور چیز ہے جس کو اصطلاح میں تسبّب کہتے ہیں ، وہ بھی از روئے نص قرآن حرام ہے خواہ ہیئت معصیت ہو یا نہ ہو، مثلاً سبّ ِالٰہ المشرکین کی نص قرآنی میں ممانعت اسی لیے فرمائی گئی ہے کہ وہ سبب ہوتی ہے سبِّ حق کے لیے۔ اسی طرح کسی کے ماں باپ کو گالی دینا حدیث میں اپنے ماں باپ کو گالی دینا اسی تسبب کی بنا پر قرار دیا گیا ’’وَلاَیَضْرِبْنَ بِاَرْجُلِہِنَّ ضرب الرِّجل للنساء‘‘ کی ممانعت