دین و شریعت کی بنیادیں اور فقہی اصول و ضابطے ۔ قرآن کی روشنی میں |
|
فاروق رضی اللہ عنہ کے ارشاد یا بعض بزرگوں کے ایسے کلمات کی آڑ لے کر طرح طرح کی بدعتیں بدعت حسنہ کے نام سے ایجاد کرنے والوں کے لیے اس میں کوئی وجہ جواز نہیں ہے، بلکہ جو چیز اصطلاح شرع میں بدعت ہے وہ مطلقاً ممنوع و ناجائز ہے۔ البتہ بدعات میں پھر کچھ درجات ہیں ، بعض سخت حرام قریب شرک کے ہیں ، بعض مکروہ تحریمی بعض تنزیہی۔ (جواہرا لفقہ ۶؍۴۶۵)بدعت کی تعریف اور اس کے اقسام و احکام کا خلاصہ بدعت لغت میں ہر نئے کام کو کہتے ہیں خواہ عادت ہو یا عبادت، جن لوگوں نے یہ معنی لیے ہیں انہوں نے بدعت کی تقسیم دو قسم میں کی ہے، سیئہ اور حسنہ، جن فقہاء کے کلام میں بعض بدعت کو حسنہ کہا گیا ہے وہ اس معنی لغوی کے اعتبار سے بدعت ہیں ، ورنہ در حقیقت بدعت نہیں ۔ اور معنی شرعی بدعت کے یہ ہیں کہ دین میں کسی کام کا زیادہ یا کم کرنا جو قرنِ صحابہ تابعین کے بعد ہوا ہو، اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے اس کے کرنے کی اجازت منقول نہ ہو، نہ قولاً نہ فعلاً نہ صراحۃً نہ اشارۃً۔ ہذا ملخص ما فی الطریقۃ المحمدیۃ وہو أجمع ما رأیت من تعریف البدعۃ، وإن أردت التفصیل فراجع إلی بریقۃ۔ شرح الطریقۃ ۱؍۱۲۸۔ پھر بدعت میں درجات ہیں ، بعض مکروہ کے درجہ میں ہیں ، بعض حرام بعض شرک، اور مصر علی البدعۃ، بہر حال فاسق ہے، اس کو امام بنانا مکروہ تحریمی ہے، کما فی الدر المختار وغیرہ۔ (امداد المفتیین فتاوی دارالعلوم ۲؍۱۵۵)