دین و شریعت کی بنیادیں اور فقہی اصول و ضابطے ۔ قرآن کی روشنی میں |
|
علمی تنقید کی اجازت ہے مگر طعن و تشنیع ممنوع ہے طَعَنُوْا فِی دِیْنِکُمْ (سورۂ توبہ پ:۱۰)کے لفظ سے بعض حضرات نے اس پر استدلال کیا ہے کہ مسلمانوں کے دین پر طعن و تشنیع کرنا عہد شکنی میں داخل ہے۔جو شخص اسلام اور شریعت اسلام پر طعنہ زنی کرے اس سے مسلمانوں کا معاہدہ نہیں رہ سکتا۔ مگر باتفاق فقہاء اس سے مراد وہ طعن و تشنیع ہے جو اسلام اور مسلمانوں کی اہانت اور تحقیر کے طور پر اعلاناً کی جائے۔ احکام ومسائل کی تحقیق میں کوئی علمی تنقید کرنا اس سے مستثنیٰ ہے اور لغت میں اس کو طعن و تشنیع کہتے بھی نہیں ۔ اس لیے دارالاسلام کے غیر مسلم باشندوں کو علمی تنقید کی تو اجازت دی جاسکتی ہے مگر اسلام پر طعنہ زنی اور تحقیر و توہین کی اجازت نہیں دی جاسکتی۔ (معارف القرآن سورۂ توبہ ۴؍۳۲۴)ہٹ دھرمی کے وقت الزامی جواب دینا مناسب ہے اَمْ خَلَقْنَا الْمَلَآئِکَۃَ اِنَاثًا وَّہُمْ شَاہِدُوْنَ۔(سورۂ صٓفٓتٓ پ:۲۳) ان آیتوں سے معلوم ہوا کہ جو لوگ ہٹ دھرمی پر تلے ہوئے ہوں ان کو الزامی جواب دینا زیادہ مناسب ہے، الزامی جواب کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ ان کے دعوے کو خود انہی کے کسی دوسرے نظریہ کے ذریعہ باطل کیا جائے، اس میں یہ ضروری نہیں ہوتا کہ دوسرا نظریہ ہمیں بھی تسلیم ہے بلکہ بسااوقات وہ دوسرا نظریہ بھی غلط ہوتا ہے لیکن مخالف کو سمجھانے کے لیے اس سے کام لیا جاتا ہے، یہاں باری تعالیٰ نے ان کے عقیدے کی تردید کے لیے خود انہی کے نظریہ کو استعمال فرمایا ہے کہ بیٹیوں کا وجود باعث ننگ وعار ہے ظاہر ہے کہ اس کا یہ مطلب نہیں کہ اللہ تعالیٰ کے نزدیک بھی بیٹیوں کا وجود باعث ننگ ہے، نہ یہ مطلب کہ اگر وہ فرشتوں کو خدا کی بیٹیوں کے بجائے خدا کے بیٹے کہتے تو یہ درست ہوتا بلکہ یہ الزامی جواب ہے جس کا مقصد خود انہیں کے مزعومات سے ان کے