دین و شریعت کی بنیادیں اور فقہی اصول و ضابطے ۔ قرآن کی روشنی میں |
|
پالیں وہ ہر حیثیت سے کامیاب اور دوہرے اجر کے مستحق ہیں ، اور جو مقدور بھر کوشش کے اس حد تک نہ پہنچے تو معذور ہیں ، ان پر کوئی ملامت نہیں بلکہ ان کے سعی وعمل کا ایک اجر ان کو بھی ملتا ہے۔ (جواہر الفقہ ۱؍۴۰۲، رسالہ وحدت امت)انبیاء علیہم السلام کے درمیان اجتہادی اختلاف مَا مَنَعَکَ اِذْ رَاَیْتَہُمْ ضَلُّوْا اَلَّا تتَّبِعَنِ۔ (سورۂ طٰہ، پ۱۶) (حضرت موسیٰ و ہارون علیہما السلام کا قصہ معروف ہے) اس واقعہ میں حضرت موسیٰ علیہ السلام کی رائے از روئے اجتہاد یہ تھی کہ اس حالت میں ہارون علیہ السلام اور انکے ساتھیوں کو اس مشرک قوم کے ساتھ نہیں رہنا چاہئے تھا، ان کو چھوڑ کر موسیٰ علیہ السلام کے پاس آجاتے جس سے ان کے عمل سے مکمل بیزاری کا اظہار ہوجاتا۔ حضرت ہارون علیہ السلام کی رائے از روئے اجتہاد یہ تھی کہ اگر ایسا کیا گیا تو ہمیشہ کے لیے بنی اسرائیل کے ٹکڑے ہوجائیں گے اور تفرقہ قائم ہوجائے گا، اور چونکہ ان کی اصلاح کا یہ احتمال موجود تھا کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام کی واپسی کے بعد ان کے اثر سے پھر یہ سب ایمان اور توحید کی طرف لوٹ آئیں اس لیے کچھ دنوں کے لیے ان کے ساتھ مساہلت اور مساکنت کو ان کی اصلاح کی توقع تک گوارہ کیا جائے۔ دونوں کا مقصد اللہ تعالیٰ کے احکام کی تعمیل اور ایمان و توحید پر لوگوں کو قائم کرنا تھا۔ مگر ایک نے مفارقت اور مقاطعت کو اس کی تدبیر سمجھا، دوسرے نے اصلاح حال کی امید تک ان کے ساتھ مساہلت اور نرمی کے معاملہ کو اس مقصد کے لیے نافع سمجھا، دونوں جانب اہل عقل وفہم اور فکر و نظر کے لیے محلِ غور وفکر ہیں ، کسی کو خطا کہنا آسان نہیں ۔ مجتہدین امت کے اجتہادی اختلافات عموماً اسی طرح کے ہوتے ہیں ان میں سے کسی کو گنہگار یا نافرمان نہیں کہا جاسکتا۔ (معارف القرآن ۶؍۱۳۵ ، طٰہ)