دین و شریعت کی بنیادیں اور فقہی اصول و ضابطے ۔ قرآن کی روشنی میں |
|
جن کو عربی زبان، عربی لغت اور محاورات اور طرق استعمال کا نیز قرآن وسنت سے متعلقہ تمام علوم کا معیاری علم اور ورع وتقویٰ کا اونچا مقام حاصل ہو، جیسے امام ابو حنیفہؒ، شافعیؒ، مالکؒ، احمدبن جنبلؒ یا اوزاعیؒ، فقیہ ابو اللیثؒ وغیرہ جن میں حق تعالیٰ نے قرب زمانۂ نبوت وصحبت صحابہ و تابعین کی برکت سے شریعت کے اصول ومقاصد سمجھنے کا خاص ذوق اور منصوص احکام سے غیر منصوص کو قیاس کرکے حکم نکالنے کا خاص سلیقہ عطا فرمایا تھا۔ ایسے مجتہد فیہ مسائل میں عام علماء کو بھی ائمہ مجتہدین میں سے کسی کی تقلید لازم ہے۔ ائمہ مجتہدین کے خلاف کوئی نئی رائے اختیار کرنا خطاء ہے، یہی وجہ ہے کہ امت کے اکابر علماء، محدثین وفقہاء، امام غزالی ، رازی، ترمذی، طحاوی، مزنی، ابن ہمام، ابن قدامہ اور اسی معیار کے لاکھوں علماء سلف وخلف علوم عربیت وعلوم شریعت کی اعلیٰ مہارت حاصل ہونے کے باوجود ایسے اجتہادی مسائل میں ہمیشہ ائمہ مجتہدین کی تقلید کے پابند رہے ہیں ، سب نے مجتہدین کے خلاف اپنی رائے سے کوئی فتویٰ دینا جائز نہیں سمجھا۔ البتہ ان حضرات کو علم وتقویٰ کا وہ معیاری درجہ حاصل تھا کہ مجتہدین کے اقوال و آراء کو قرآن و سنت کے دلائل سے جانچتے اور پرکھتے تھے، پھر ائمہ مجتہدین میں جس امام کے قول کو کتاب وسنت کے ساتھ اقرب پاتے اس کو اختیار کرلیتے تھے۔ مگر ائمہ مجتہدین کے مسلک سے خروج اور ان سب کے خلاف کوئی رائے قائم کرنا ہرگز جائز نہ جانتے تھے، تقلید کی اصل حقیقت اتنی ہی ہے۔ (معارف القرآن ۵؍۳۳۴)تقلید شخصی کا آغاز اور اس کا محرّک اس کے بعد روز بروز علم کا معیار گھٹتا گیا اور تقویٰ و خدا ترسی کے بجائے اغراض نفسانی غالب آنے لگیں ، ایسی حالت میں اگر یہ آزادی دی جائے کہ جس مسئلہ میں