دین و شریعت کی بنیادیں اور فقہی اصول و ضابطے ۔ قرآن کی روشنی میں |
|
جیسے اکثر انبیاء بنی اسرائیل شریعت موسویہ کی تبلیغ کرتے تھے، اس سے معلوم ہوا کہ ایک اعتبار سے لفظ رسول نبی سے عام ہے اور دوسرے اعتبار سے لفظ نبی بہ نسبت رسول کے عام ہے، جس جگہ یہ دونوں لفظ استعمال کئے گئے جیسا کہ آیات مذکورہ میں ’’رَسُوْلاً نَبِیّاً‘‘ آیا ہے، وہاں تو کوئی اشکال نہیں کہ خاص و عام دونوں جمع ہوسکتے ہیں کہ تضاد نہیں ۔ لیکن جس جگہ یہ دو لفظ باہم متقابل آئے ہیں ، جیسے’’ وَمَا اَرْسَلْنَا مِن رَّسُوْلٍ وَّلَا نَبِیٍّ‘‘ میں تو اس جگہ بقرینۂ مقام لفظ نبی کو خاص اس شخص کے معنی میں لیا جائے گا جو شریعت سابقہ کی تبلیغ کرتا ہے۔(معارف القرآن ۶؍۳۸- سورہ مریم ۱۹-آیت ۵۸)نبی ورسول کا باہمی فرق ’’مَا کَانَ مُحَمَّدٌ اَبَا اَحَدٍ مِّنْ رِجَالِکُمْ وَلَکِنْ رَسُوْلَ اللّٰہِ وَخَاتَمَ النَّبِیِّیْنَ‘‘ (احزاب، پ۲۲) جمہور علماء کے نزدیک نبی اور رسول میں ایک فرق ہے وہ یہ کہ نبی تو ہر اس شخص کو کہا جاتا ہے جس کو حق تعالیٰ اصلاح خلق کے لیے مخاطب فرمائیں ، اور اپنی وحی سے مشرف فرمائیں ، خواہ اس کے لیے کوئی مستقل کتاب اور مستقل شریعت تجویز کریں یا پہلے ہی کسی نبی کی کتاب وشریعت کے تابع لوگوں کو ہدایت کرنے پر مامور ہو، جیسے حضرت ہارون علیہ السلام حضرت موسیٰ علیہ السلام کی کتاب وشریعت کے تابع ہدایت کرنے پر مامور تھے۔ اور لفظ رسول خاص اس نبی کے لیے بولا جاتا ہے جس کو مستقل کتاب و شریعت دی گئی ہو، اسی طرح لفظ نبی کے مفہوم میں بہ نسبت لفظ رسول کے عموم زیادہ ہے، تو آیت کا مفہوم یہ ہوا کہ آپ انبیاء کے ختم کرنے والے اور سب سے آخر میں ہیں خواہ وہ صاحب شریعت نبی ہوں یا صرف پہلے نبی کے تابع۔ اس سے معلوم ہوا کہ نبی کی جتنی