دین و شریعت کی بنیادیں اور فقہی اصول و ضابطے ۔ قرآن کی روشنی میں |
|
خلاصہ یہ ہے کہ اجتہادی اختلافات میں جمہور علماء کے نزدیک علم الٰہی کے اعتبار سے دو مختلف آراء میں سے حق تو کوئی ایک ہی ہوتی ہے مگر اس کا متعین کرنا کہ ان میں سے حق کیا ہے اس کا یقینی ذریعہ کسی کے پاس نہیں ، دونوں طرف خطا و صواب کا احتمال دائرہے، مجتہد اپنے غور وفکر سے کسی ایک جانب کوراجح قرار دے کر عمل کے لیے اختیار کرلیتا ہے۔ (وحدت امت، جواہر الفقہ ۱؍۴۰۷، ۴۰۸، مطبوعہ پاکستان)اجتہادی اختلافات کے متعلق علامہ انور شاہ کشمیریؒ کا ارشاد استاذ الاساتذہ سیدی حضرت مولانا سید محمد انور شاہ کشمیریؒ سابق صدر مدرس دارالعلوم دیوبند نے ایک مرتبہ فرمایا کہ اجتہادی مسائل اور ان کے اختلاف جن میں ہم اور عام اہل علم الجھتے رہتے ہیں اور علم کا پورا زور اس پر خرچ کرتے ہیں ان میں صحیح و غلط کا فیصلہ دنیا میں تو کیا ہوتا میرا گمان تو یہ ہے کہ محشر میں بھی اس کا اعلان نہیں ہوگا کیونکہ رب کریم نے جب دنیا میں کسی امام مجتہد کو باوجود خطا ہونے کے ایک اجر وثواب سے نوازا ہے اور ان کی خطاء پر پردہ ڈالا ہے تو اس کریم الکرماء کی رحمت سے بہت بعید ہے کہ وہ محشر میں اپنے ان مقبولان بارگاہ میں سے کسی کی خطا کا اعلان کرکے اس کو رسوا کریں ۔ اس کا حاصل یہ ہے کہ جن مسائل میں صحابہؓ و تابعین اور ائمہ مجتہدین کا نظری اختلاف ہوا ہے ان کا قطعی فیصلہ نہ یہاں ہوگا نہ آخرت میں ، کیونکہ عمل کرنے والوں کے لیے ان میں سے ہر ایک کی رائے پر اپنی ترجیح کے مطابق عمل کرلینا جائز قرار دے دیا گیا ہے اور جس نے اس کے مطابق عمل کرلیا وہ فرض سے سبکدوش ہوگیا، اس کو باجماع امت تارک فرض نہیں کہا جاسکتا۔ ان مسائل میں کوئی عالم کتنی ہی تحقیقات کرے یہ ممکن نہیں ہے کہ اس کی تحقیق کو یقینی حق و صواب کہا جائے اور اس کے مقابل کو باطل قرار دیا جائے۔ امام حدیث حافظ شمس الدینؒ ذہبی نے فرمایا ہے کہ جس مسئلہ میں صحابہ و تابعین کا