دین و شریعت کی بنیادیں اور فقہی اصول و ضابطے ۔ قرآن کی روشنی میں |
|
اجتہادی اختلاف سلف صالحین کی نظر میں علمی مسائل میں جھگڑا نورِ علم کو ضائع کردیتا ہے ایسے ہی اختلاف کے متعلق جس میں صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی دو رائیں ہوں امام اعظم ابوحنیفہؒ نے فرمایا: أحد القولین خطاء والماثم فیہ موضوع۔ (جامع بیان العلم لابن عبد البرؒ ۲؍۸۳) متضاد اقوال میں سے ایک خطا ہے مگر اس خطا کا گناہ معاف کردیا گیا ہے۔ دلائل سے ثابت کیا ہے کہ کسی امام و مجتہد کے بارے میں یہ نہیں کہا جاسکتا کہ اس نے حدیث پاک کے خلاف مسلک کو اختیار کیا ہے اس کے وجوہات اور اسباب تفصیل سے لکھے ہیں ۔ (ملاحظہ ہو ’’رفع الملام عن الائمۃ الاعلام‘‘ فتاوی ابن تیمیہ ) اور امام مالکؒ سے صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم کے باہمی اختلافات کے متعلق سوال کیا گیا تو فرمایا:خطائٌ وصوابٌ فانظر فی ذٰلک۔ (جامع بیان العلم) =اسی طرح بہت سے سوانح نگاروں نے یہ خدمت انجام دی ہے کہ علمائے و مشائخ پر لگائے گئے اعتراضات کے جوابات دئیے ہیں ، حکیم الامت حضرت تھانویؒ نے ایک رسالہ اسی غرض سے لکھا ہے ’’السنۃ الجلیۃ فی الچشتیہ العلیۃ‘‘ اس کا مقصد بھی یہی ہے، لہٰذا اگر بزرگان دین اور ائمہ مجتہدین پر اعتراضات کئے جاتے ہیں ان کی شخصیت کو مجروح کیا جاتا ہے، ان کے مسلک کی طرف سے بے اعتمادی پیدا کی جاتی ہے، تو ایسے موقع پر حمایت کرنا، شکوک و شبہات کا ازالہ کرنا، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمان کے مطابق بڑی خدمت ہوگی اور باعث اجر وثواب بھی ہوگا بشرطیکہ حدود کے اندر ہو اور اخلاص کے ساتھ ہو۔ واﷲ فی عون العبد ماکان العبد فی عون اخیہ۔ (ابوداؤد)