دین و شریعت کی بنیادیں اور فقہی اصول و ضابطے ۔ قرآن کی روشنی میں |
|
ہوئے لوگوں کو راستے پر لگایا؟ تو آج ہمیں سوچ لینا چاہئے کہ ہمارا کیا جواب ہوگا۔ (وحدت امت، جواہرالفقہ ۱؍۴۲۶)عوام کا ایک مغالطہ اور اس کا حل بہت سے حضرات مسائل میں علماء کے اختلافات سے پریشان ہوکر پوچھا کرتے ہیں کہ ہم کدھر جائیں ، جس کی تہ میں یہ پوشیدہ ہوتا ہے کہ اب ہم کسی کی نہ سنیں ، سب سے آزاد ہوکر جو سمجھ میں آئے کیا کریں ، اور بظاہر ان کا یہ معصومانہ سوال حق بہ جانب نظر آتا ہے لیکن ذرا غور فرمائیں تو ان کو اس کا جواب اپنے گردوپیش کے معاملات میں خود ہی مل جائے گا۔ ایک صاحب بیمار ہوئے ڈاکٹروں یا حکیموں کی رایوں میں تشخیص وتجویز کے بارے میں اختلاف ہوگیا تو وہ کیا کرتے ہیں ؟ یہی ناکہ وہ ان ڈاکٹروں ، حکیموں کی تعلیمی ڈگریاں معلوم کرکے یا پھر ان کے مطب میں علاج کرانے والے مریضوں سے یا دوسرے اہل تجربہ سے دریافت کرکے اپنے علاج کے لیے کسی ایک ڈاکٹر کو متعین کرلیتے ہیں ، اسی کی تشخیص و تجویز پر عمل کرتے ہیں ، مگر دوسرے ڈاکٹروں ، حکیموں کو برا بھلا کہتے نہیں پھرتے۔ یہاں کسی کا یہ خیال نہیں ہوتا کہ معالجوں میں اختلاف ہے تو سب کو چھوڑ، اپنی آزادرائے سے جو چاہو کرو، کیا یہی طرز عمل علماء کے اختلاف کے وقت نہیں کرسکتے؟ایک مثال اور لیجئے! آپ کو ایک مقدمہ عدالت میں دائر کرنا ہے، قانون جاننے والے وکلاء سے مشورہ کیا، ان میں اختلاف رائے ہوا، کوئی آدمی یہ تجویز نہیں کرتا کہ مقدمہ دائر کرنا ہی چھوڑ بیٹھے یا پھر کسی وکیل کی نہ سنے خود اپنی رائے سے جو سمجھ میں آئے کرلے، بلکہ ہوتا