دین و شریعت کی بنیادیں اور فقہی اصول و ضابطے ۔ قرآن کی روشنی میں |
|
آئی ہیں ان میں بکثرت تو جھوٹی ہیں ، اور غلط ہیں ، جو دشمنوں نے اڑائی ہیں ، اور بعض وہ ہیں جن میں کمی بیشی کرکے اپنی اصلیت کے خلاف کردی گئی ہیں اور جو بات صحیح بھی ہے تو صحابہ کرام اس میں اجتہادی رائے کی بنا پر معذور ہیں ، اور بالفرض جہاں وہ معذور بھی نہ ہوں تو اللہ کا قانون یہ ہے کہ ’’اِنَّ الْحَسَنَاتِ یُذْہِبْنَ السَّیِّئَات‘‘ یعنی اعمال صالحہ سے برے اعمال کا کفارہ ہوجاتا ہے۔ اوریہ ظاہر ہے کہ صحابۂ کرام کے اعمال صالحہ کے برابر کسی دوسرے کے اعمال نہیں ہوسکتے۔ اور اللہ تعالیٰ کے عفو وکرم کے جتنے وہ مستحق ہیں ، کوئی دوسرا نہیں ہوسکتا، اس لیے کسی کو یہ حق نہیں کہ ان کے اعمال پر مؤاخذہ کرے، اور ان میں سے کسی پر طعن و اعتراض کی زبان کھولے۔ (عقیدہ واسطیہ ملخصاً)۔ (معارف القرآن ۲؍۲۱۳، آل عمران) ابن تیمیہؒ نے شرح عقیدۂ واسطیہ میں تمام امت محمدیہ اہل سنت والجماعت کا عقیدہ بیان کرتے ہوئے مشاجرات صحابہ کے متعلق لکھا ہے۔ ویمسکون عما شجر بین الصحابۃ (اہل سنت والجماعت سکوت اختیار کرتے ہیں ان اختلافی معاملات سے جو صحابہ کرام کے درمیان پیش آئے)۔ (معارف القرآن ۸؍۳۰۱)صحابہ کرام کی غلطیوں اور کوتاہیوں کا تدارک ان میں سے اگر کسی سے کوئی لغزش اور غلطی بھی ہوتی ہے تو اکثر وہ اجتہادی خطا ہوتی ہے، جس پر کوئی گناہ نہیں ، بلکہ حسب تصریح احادیث صحیحہ ایک اجر ہی ملتا ہے اور اگر فی الواقع کوئی گناہ ہوگیا تو اول تو وہ ان کے عمر بھر کے اعمال حسنہ اوررسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور اسلام کی نصرت وخدمت کے مقابلہ میں صفر کی حیثیت رکھتا ہے، اور پھر ان میں خشیت اور خوفِ خدا کا یہ عالم تھا کہ معمولی سے گناہ سے بھی لرزجاتے اور فوراً توبہ