دین و شریعت کی بنیادیں اور فقہی اصول و ضابطے ۔ قرآن کی روشنی میں |
|
احادیث نبویہ کو غیر محفوظ کہنا در اصل قرآن کو غیر محفوظ کہنا ہے جو لوگ آج کل دنیا کو اس مغالطہ میں ڈالنا چاہتے ہیں کہ احادیث کا ذخیرہ جو مستند کتب میں موجود ہے وہ اس لیے قابل اعتبار نہیں کہ وہ زمانۂ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے بہت بعد میں مدون کیا گیا ہے۔ اول تو انکا یہ کہنا ہی صحیح نہیں کیونکہ حدیث کی حفاظت و کتابت خود عہد رسالت میں شروع ہوچکی تھی، بعد میں اس کی تکمیل ہوئی، اس کے علاوہ حدیث رسول صلی اللہ علیہ وسلم در حقیقت تفسیر قرآن اور معانیٔ قرآن ہیں ، ان کی حفاظت اللہ تعالیٰ نے اپنے ذمہ لی ہے، پھر یہ کیسے ہوسکتا ہے کہ قرآن کے صرف الفاظ محفوظ رہ جائیں معانی (یعنی احادیث رسول صلی اللہ علیہ وسلم) ضائع ہوجائیں ؟ (معارف القرآن ۵؍۲۷۲)قرآن کی طرح حدیث کی بھی حفاظت اور اس کی تبلیغ واجب ہے ’’وَاذْکُرْنَ مَا یُتْلَی فِیْ بُیُوْتِکُنَّ مِنْ اٰیَاتِ اللّٰہِ وَالْحِکْمَۃِ‘‘ آیات اللہ سے مراد قرآن و حکمت سے مراد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیمات اور سنت رسول ہے، جیسا کہ عامۂ مفسرین نے حکمت کی تفسیر اس جگہ سنت سے کی ہے، اورلفظ اذکرن کے دو مفہوم ہوسکتے ہیں ایک یہ کہ ان چیزوں کو خود یاد رکھنا جس کا نتیجہ ان پر عمل کرنا ہے، دوسرے یہ کہ جو کچھ قرآن ان کے گھروں میں ان کے سامنے نازل ہوا یا جو تعلیمات رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو دیں اس کا ذکر امت کے دوسرے لوگوں سے کریں اور ان کو پہنچائیں ۔فا ئدہ: ابن عربی نے احکام القرآن میں فرمایا کہ اس آیت سے یہ ثابت