دین و شریعت کی بنیادیں اور فقہی اصول و ضابطے ۔ قرآن کی روشنی میں |
|
ایک بڑی غلط فہمی کا ازالہ (حاشیہ از مرتب) ٭ حضرت علامہ انور شاہ کشمیریؒ کے فرمان کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ ضرورت کے موقعوں پر بھی مسلک کی ترجیح ثابت نہ کی جائے، بلا شبہ بعض حالات اور بعض مواقع ایسے بھی آجاتے ہیں کہ فتنہ پر ور لوگ سیدھے سادے دیندار مسلمانوں کو شکوک و شبہات میں مبتلا کرکے فتنہ کا نیا دروازہ کھول دیتے ہیں ، مثلاً حضرت امام ابو حنیفہؒ کی شخصیت کو مجروح کرتے ہیں کہ ان کو حدیثوں کا علم نہ تھا، صرف ۱۷، حدیثیں ان کو یاد تھیں ، حدیثوں کے مقابلہ میں وہ قیاس اور رائے سے کام لیتے تھے، فلاں فلاں مسئلہ حنفی مسلک میں (مثلاً عدم رفع یدین، آمین بالسر وغیرہ مشہور مسئلے) حدیث پاک کے خلاف ہیں ، حنفی مسلک حدیث کے خلاف ہے، وغیرہ وغیرہ۔ اس قسم کے حالات میں جب کہ امام ابو حنیفہؒ کی شخصیت کو متہم اور مجروح کیا جارہا ہو، ان کے مدون کردہ فقہ کو بے بنیاد اور حدیث پاک کے خلاف قرار دیا جارہا ہو، جو کہ بالکل واقع کے خلاف ہے، ایسی صورت میں واقعی ضروت پیش آتی ہے کہ ائمۂ مجتہدین کی طرف سے دفاع کیا جائے، ان کے مدون کردہ فقہ کی حفاظت کی جائے، اور اس کے نشر واشاعت کی کوشش کی جائے، ایسا کرنا خود جناب محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمان کا مقتضیٰ ہے۔ بخاری شریف میں میں ’باب قول النبی صلی اللہ علیہ وسلم الدین النصیحۃ ﷲ ولرسولہ ولأئمۃ المسلمین‘۔ (بخاری شریف باب ۴۲، حدیث ص:۵۷) یعنی دین نام ہے خیر خواہی اور ادائے حقوق کا ، اللہ کے لیے اس کے رسول کے لیے اور ائمۃ المسلمین کے لیے۔ مسلم شریف کی روایت میں ہے کہ تمیم داری فرماتے ہیں کہ ہم نے عرض کیا یا رسول اللہ خیر خواہی کس کے لیے؟ آپ نے فرمایا ﷲ ولکتابہ ولرسولہ ولأئمۃ المسلمین یعنی دین نام ہے اللہ اور اس کے رسول اور اس کی کتاب کے ساتھ خیر خواہی اور ادائے حقوق کا ، اسی طرح دین نام ہے ائمۃ المسلمین کے ساتھ خیر خواہی کرنے کا۔ اس حدیث کی شرح میں شارح بخاری حافظ ابن حجرؒ تحریر فرماتے ہیں : ----------------------------------------