دین و شریعت کی بنیادیں اور فقہی اصول و ضابطے ۔ قرآن کی روشنی میں |
|
میں دیدیا پھر کچھ عرصہ کے بعدبیوی نے شوہر کی ملکیت میں دیدیااورجب اگلا سال ختم ہونے کے قریب ہوا تو پھر شوہر نے بیوی کو ہبہ کردیا اس طرح کسی پر زکوٰۃ واجب نہیں ہوتی، ایسا کرنا چونکہ مقاصد شرعیہ کو باطل کرنے کی ایک کوشش ہے اس لیے حرام ہے۔ اور شاید اس کا وبال ترک زکوٰ ۃ کے وبال سے زیادہ بڑا ہے۔ (روح المعانی از مبسوط سرخسی، معارف القرآن ۷؍۵۲۳) عمدہ کھجور خرید لی تویہاں حکم شرعی کی تعمیل مقصود ہے ابطال نہ مقصود ہے نہ واقع ہے، اسی طرح بعض دوسرے مسائل میں بھی فقہاء نے حرام سے بچنے کی بعض ایسی تدبیریں بتلائی ہیں ان کو یہودیوں کے حیلوں کی طرح کہنا اور سمجھنا غلط ہے۔ (معارف القرآن ۱؍۲۴۳)حیلہ کے جواز کی شرط اور اس کا معیار اس آیت (وَخُذْ بِیَدِکَ ضِغْثًا - پ۲۳) سے دوسرا مسئلہ یہ معلوم ہوا کہ کسی نامناسب یا مکروہ بات سے بچنے کے لیے کوئی شرعی حیلہ اختیار کیا جائے تو وہ جائز ہے ظاہر ہے کہ حضرت ایوب علیہ السلام کے واقعہ میں قسم کا اصلی تقاضا یہ ہے کہ اپنی زوجہ مطہرہ کو پوری سو قمچیاں ماریں لیکن چونکہ ان کی زوجہ مطہرہ بے گناہ تھیں اورا نہوں نے حضرت ایوب علیہ السلام کی بے مثال خدمت کی تھی اس لیے اللہ تعالیٰ نے خود ایوب علیہ السلام کو ایک حیلہ کی تلقین فرمائی۔ اور یہ تصریح کردی کہ اس طرح ان کی قسم نہیں ٹوٹے گی اس لیے یہ واقعہ حیلہ کے جواز پر دلالت کرتا ہے۔ لیکن یہ یاد رکھنا چاہئے کہ اس قسم کے حیلے اسی وقت جائز ہوتے ہیں جب کہ انہیں شرعی مقاصد کے ابطال کا ذریعہ نہ بنایاجائے اور اگر حیلہ کا مقصود یہ ہو کہ کسی حقدار کا حق باطل کیا جائے یا کسی صریح فعل حرام کو اس کی روح برقرار رکھتے ہوئے اپنے لیے