دین و شریعت کی بنیادیں اور فقہی اصول و ضابطے ۔ قرآن کی روشنی میں |
|
اہل کتاب کی تحقیق اہل کتاب کا مصداق اور ان کے ذبیحہ کا حکم وَطَعَامُ الَّذِیْنَ اُوْتُوْا الْکِتَابَ حِلٌّ لَکُمْ وَطَعَامُکُمْ حِلٌّ لَہُمْ۔ (سورۂ نساء پ:۵) یعنی اہل کتاب کا کھانا تمہارے لیے حلال ہے، اور تمہارا کھانا اہل کتاب کے لیے حلال۔ اس جگہ جمہور صحابہ و تابعین کے نزدیک کھانے سے مراد ذبیحہ جانور ہیں ، حضرت عبد اللہ بن عباس، ابو الدرداء، ابراہیم، قتادہ، سدی، ضحاک، مجاہد، رضی اللہ عنہم اجمعین سے یہی منقول ہے (روح المعانی وجصاص) کیونکہ دوسری قسم کے کھانوں میں اہل کتاب اور بت پرست، مشرکین سب برابر ہیں کہ روٹی، آٹا، دال، چاول، پھل وغیرہ جن میں ذبح کی ضرورت نہیں ۔ وہ کسی بھی جائز طریقہ پر حاصل ہو تو مسلمان کو اس کا کھانا جائز ہے۔ اور مسلمانوں سے ان کوملے تو ان کے لیے حلال ہے۔ اس لیے خلاصۂ مضمون اس جملہ کا یہ ہوا کہ اہل کتاب کا ذبیحہ مسلمان کے لیے اور مسلمان کا ذبیحہ اہل کتاب کے لیے حلال ہے۔ اب اس جگہ چند مسائل قابل غور ہیں ، اول یہ کہ اہل کتاب قرآن وسنت کی اصطلاح میں کون لوگ ہیں ، کتاب سے کیا مراد ہے؟ اور کیا اہل کتاب ہونے کے لیے یہ بھی ضروری ہے کہ وہ لوگ اپنی کتاب پر صحیح طور سے ایمان وعمل رکھتے ہوں ، اس میں یہ تو ظاہر ہے کہ کتاب کے لغوی معنی یعنی ہر لکھا ہوا ورق تو مراد ہونہیں سکتا۔ وہ ہی کتاب مراد ہوسکتی ہے جو اللہ کی طرف سے آئی ہو۔ اس لیے باتفاق امت کتاب سے مراد وہ آسمانی کتاب ہے جس کا کتاب اللہ ہونا بتصدیق قرآن یقینی ہو، جیسے تو رات ، انجیل،