دین و شریعت کی بنیادیں اور فقہی اصول و ضابطے ۔ قرآن کی روشنی میں |
|
نِعْمَۃَ اللّٰہِ ثُمَّ یُنْکِرُوْنَہَا‘‘ یعنی اللہ کی قدرت کاملہ کے مظاہر دیکھ کر اس کی نعمتوں کو پہچانتے ہیں مگر پھر از روئے عناد انکار کرتے ہیں ، گویا ان نعمتوں کو جانتے نہیں ، اس سے معلوم ہوا کہ لغوی معنی کے اعتبار سے معروف کے معنی پہچانی ہوئی چیز کے ہیں ، اور منکر کے معنی ناپہچانی ہوئی چیز کے، امام راغب اصفہانی نے مفردات القرآن میں اسی کی مناسبت سے اصطلاح شرع میں معروف و منکر کے یہ معنی بیان فرمائے ہیں کہ معروف ہر اس فعل کو کہا جاتا ہے جس کا مستحسن یعنی اچھا ہونا عقل یا شرع سے پہچانا ہوا ہو، اور منکر ہر اس فعل کا نام ہے جو از روئے عقل و شرع اوپرا اور نہ پہچانا ہوا ہو، یعنی برا سمجھا جاتاہو، اس لیے امر بالمعروف کے معنی اچھے کام کی طرف بلانے کے اور نہی عن المنکر کے معنی برے کام سے روکنے کے ہوگئے۔ائمہ مجتہدین کے مختلف اقوال میں کوئی منکر شرعی نہیں ہوتا لیکن اس جگہ گناہ و ثواب یا طاعت ومعصیت کے بجائے معروف و منکر کا لفظ استعمال کرنے میں شاید اس طرف اشارہ ہو کہ وہ دقیق اور اجتہادی مسائل جن میں قرآن و سنت کے اجمال یا ابہام کی وجہ سے دو رائیں ہوسکتی ہیں ، اور اسی بناء پر ان میں فقہاء امت کے اقوال مختلف ہیں ، وہ اس دائرہ سے خارج ہیں ائمہ مجتہدین جن کی شان اجتہاد علماء امت میں مسلم ہے، اگر کسی مسئلہ میں ان کے دو مختلف قول ہوں تو ان میں سے کسی کو بھی منکر شرعی نہیں کہا جاسکتا ، بلکہ اس کی دونوں جانبیں معروف میں داخل ہیں ایسے مسائل میں ایک رائے کو راجح سمجھنے والے کے لیے یہ حق نہیں ہے کہ دوسرے پر ایسا انکار کرے، جیسا کہ گناہ پر کیا جاتا ہے، یہی وجہ ہے کہ صحابہ وتابعین میں بہت سے اجتہادی اختلافات اور متضاد اقوال کے باوجود یہ کہیں منقول نہیں کہ وہ ایک دوسرے پر فاسق یا گنہگار ہونے کا فتویٰ لگاتے ہوں بحث و تمحیص اور مناظرے ومکالمے سب کچھ ہوتے تھے، اور ہر ایک اپنی رائے کی ترجیح کی وجوہ بیان کرتا اور دوسرے پر اعتراض کرتا