دین و شریعت کی بنیادیں اور فقہی اصول و ضابطے ۔ قرآن کی روشنی میں |
|
ہے۔ فلسفیانہ دور ازکار بحثوں میں انسان کو نہیں الجھاتا ۔ (معارف القرآن ۶؍۴۷۷-۴۷۸، پ۱۹)جدید تحقیقات کی وجہ سے قرآن میں تاویل کرنا یا قرآن حکیم کو اس کے تابع کرنا درست نہیں علماء اہل حق قدیم و جدید سب اس بات پر متفق ہیں کہ ان مسائل کے متعلق جو بات قرآن کریم سے یقینی طور پر ثابت ہے اگر کوئی قدیم یا جدید نظریہ اس سے مختلف ہو تو اس کی وجہ سے قرآنی آیات میں کھینچ تان اور تاویل جائز نہیں اس نظریہ ہی کو مغالطہ قرار دیا جائے گا۔ البتہ جن مسائل میں قرآن کریم کی کوئی تصریح موجود نہیں الفاظ قرآنی میں دونوں معنی کی گنجائش ہے وہاں اگر مشاہدات اور تجربے سے کسی ایک نظریہ کو قوت حاصل ہوجائے تو آیت قرآنی کو بھی اسی معنی پر محمول کرلینے میں کوئی مضائقہ نہیں ۔ اور یہ کوئی تاویل نہیں بلکہ دو مفہوم میں سے ایک کی تعیین ہے۔ مثلاً قرآن کریم کی آیت ’’کُلٌّ فِیْ فَلَکٍ یَّسْبَحُوْن‘‘ سے ستاروں کا حرکت کرنا ثابت ہے تو اس معاملہ میں بطلیموسی نظریہ کو غلط قرار دیا جائے گا۔ جس کی رو سے بطلیموسی ستارے آسمان کے جرم میں پیوست ہیں ، وہ خود حرکت نہیں کرتے بلکہ آسمان کی حرکت کے تابع ان کی حرکت ہوتی ہے اس دعویٰ کی وجہ سے آیات میں کوئی تاویل نہیں کی جائے گی اور اس دعوے کو غلط قرار دیا جائے گا۔ (معارف القرآن ۶؍۴۷۹)