دین و شریعت کی بنیادیں اور فقہی اصول و ضابطے ۔ قرآن کی روشنی میں |
علیہ وسلم نے فرمایا حضرت طلحہ کے بارے میں ان طلحۃ شہید یمشی علی وجہ الارض یعنی طلحہ روئے زمین پر چلنے والے شہید ہیں ۔ اب اگر حضرت علی رضی اللہ عنہ کے خلاف حضرت طلحہ کا جنگ کے لیے نکلنا کھلا گناہ اور عصیان تھا تو اس جنگ میں مقتول ہوکروہ ہرگز شہادت کا مرتبہ حاصل نہ کرتے، اسی طرح حضرت طلحہؓ کا یہ عمل تاویل کی غلطی اور ادائے واجب میں کوتاہی قرار دیا جاسکتا تو بھی آپ کو شہادت کا مقام حاصل نہ ہوتا کیونکہ شہادت تو صرف اس وقت حاصل ہوتی ہے جب کوئی شخص اطاعت ربانی میں قتل ہوا ہو، لہٰذا ان حضرات کے معاملہ کو اسی عقیدہ پرمحمول کرنا ضروری ہوگا جس کا اوپر ذکر کیا گیا ہے۔ (۳) اس بات کی دوسری دلیل وہ صحیح اور معروف و مشہور احادیث ہیں جو خود حضرت علیؓ سے مروی ہیں اور جن میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ ’’زبیر کا قاتل جہنم میں ہے‘‘۔ نیز حضرت علی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا کہ ’’صفیہ کے بیٹے کے قاتل کو جہنم کی خبر دے دو‘‘ جب یہ بات ہے تو ثابت ہوگیا کہ حضرت طلحہ رضی اللہ عنہ اور حضرت زبیر رضی اللہ عنہ اس لڑائی کی وجہ سے عاصی اور گنہگار نہیں ہوئے، اگر ایسا نہ ہوتا تو حضور صلی اللہ علیہ وسلم حضرت طلحہؓ کو شہید نہ فرماتے، اور حضرت زبیر کے قاتل کے بارے میں جہنم کی پیشین گوئی نہ کرتے۔ نیز ان کا شمار عشرہ مبشرہ میں ہے جن کی جنتی ہونے کی شہادت تقریباً متواتر ہے۔ اسی طرح جو حضرات صحابہ ان جنگوں میں کنارہ کش رہے انہیں بھی تاویل میں خطا کار نہیں کہا جاسکتا بلکہ ان کا طرز عمل بھی اس لحاظ سے درست تھا کہ اللہ تعالیٰ نے ان کواجتہاد میں اسی رائے پر قائم رکھا، جب یہ بات ہے تو اس وجہ سے ان حضرات پر لعن طعن کرنا ان سے براء ت کا اظہار کرنا اور انہیں فاسق قرار دینا۔ ان کے فضائل ومجاہدات