دین و شریعت کی بنیادیں اور فقہی اصول و ضابطے ۔ قرآن کی روشنی میں |
|
ایک آیت قرآن میں اس کی ہدایت فرمائی گئی ہے کہ آنحضر ت صلی اللہ علیہ وسلم کو پکارنے کے وقت ادب کا لحاظ رکھیں ، اس طرح نہ پکاریں جس طرح آپس میں ایک دوسرے کو پکارا کرتے ہیں ’’لاََ تَجْعَلُوْا دُعَآئَ الرَّسُوْلِ بَیْنَکُمْ کَدُعَآئِ بَعْضِکُمْ بَعْضًا‘‘ آخر آیت میں اس پر متنبہ کیا گیا ہے کہ اس کے خلاف کوئی کام بے ادبی کا کیا گیا تو سارے اعمال حبط اور برباد ہوجائیں گے۔ یہی وجہ ہے کہ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین باوجودیکہ ہر وقت ہر حال میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے شریک کار رہتے تھے اور ایسی حالت میں احترام و تعظیم کے آداب ملحوظ رکھنا بہت مشکل ہوتا ہے، لیکن ان کا یہ حال تھا کہ آیت مذکورہ کے نازل ہونے کے بعد حضرت صدیق اکبر جب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں کچھ عرض کرتے تو اس طرح بولتے تھے جیسے کوئی پوشیدہ بات کو آہستہ کہا کرتا ہے، یہی حال حضرت فاروق اعظمؓ کا تھا۔ (شفاء) حضرت عمر وبن عاصؓ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے زیادہ کوئی مجھے دنیا میں محبوب نہ تھا اور میرا یہ حال تھا کہ میں آپ کی طرف نظر بھر کر دیکھ بھی نہ سکتا تھا، اور اگر کوئی مجھ سے آپ کا حلیہ مبارک دریافت کرے تو میں بیان کرنے پر اس لیے قادر نہیں کہ میں نے کبھی آپ کو نظر بھر کردیکھا ہی نہیں ۔ ترمذی نے حضرت انسؓسے نقل کیا ہے کہ مجلس صحابہؓ میں جب آں حضرت صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لاتے تھے تو سب نیچی نظریں کرکے بیٹھتے تھے، صرف صدیق اکبر اور فاروق اعظم آپ کی طرف نظر کرتے اور آپ ان کی طرف نظر فرماکر تبسم فرماتے تھے۔ عروہ بن مسعود کو اہل مکہ نے جا سوس بناکر مسلمانوں کا حال معلوم کرنے کے لیے مدینہ بھیجا، اس نے صحابۂ کرام کو پروانہ وار آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر گِرتا اورفدا ہوتا ہوا دیکھ کر واپسی میں یہ رپورٹ دی کہ میں نے کسریٰ وقیصر کے دربا ر بھی دیکھے ہیں اور