دین و شریعت کی بنیادیں اور فقہی اصول و ضابطے ۔ قرآن کی روشنی میں |
|
ساری امت ان کے مقابلہ میں پست اور عاجز۔ ہمارے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم میں سب شانیں درجۂ کمال میں پائی جاتی ہیں اس لیے امت پر لازم ہے کہ ہر شان کا حق ادا کریں ، بحیثیت رسول کے ان پر ایمان لائیں ، بحیثیت امیرو حاکم کے ان کے احکام کی پیروی کریں ، بحیثیت محبوب ہونے کے ان کے ساتھ گہری محبت رکھیں ، اور بحیثیت کمالاتِ نبوت ان کی تعظیم و تکریم بجا لائیں ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت اور اتباع تو امت پر فرض ہونا ہی چاہئے تھا، کیونکہ انبیاء کے بھیجنے کا مقصد ہی اس کے بغیر پورا نہیں ہوتا، لیکن حق تعالیٰ نے ہمارے رسول مقبول صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں صرف اسی پر اکتفا نہیں فرمایا بلکہ امت پر آپ کی تعظیم و توقیر اور احترام و ادب کو بھی لازم قرار دیا ہے اور قرآن کریم میں جابجا اس کے آداب سکھائے گئے ہیں ۔ اس آیت میں تو ’’عَزَّرُوْہُ وَنَصَرُوْہُ‘‘ کے الفاظ سے اس کی طرف ہدایت کی گئی ہے اور ایک دوسری آیت میں بھی’’وتُعََزَّرُوْہُ وَتُوَقِّرُوْہُ‘‘ آیا ہے اور کئی آیتوں میں اس کی ہدایت کی گئی ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے ایسی بلند آواز سے بات نہ کریں کہ آپ کی آواز سے بڑھ جائے ’’ یَا اَیُّہَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا تَرْفَعُوْا اَصْوَاتَکُمْ فَوْقَ صَوْتِ النَّبِی‘‘۔ اورایک جگہ ارشاد ہے: ’’یَا اَیُّہَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا تُقَدِّمُوْا بَیْنَ یَدَیِ اللّٰہِ وَرَسُوْلِہِ‘‘ یعنی اے مسلمانو! اللہ اور اس کے رسول سے پیش قدمی نہ کرو، یعنی جس مجلس میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم تشریف فرماہوں اور کوئی معاملہ پیش آئے تو آپ سے پہلے کوئی نہ بولے۔ حضرت سہل بن عبد اللہ نے اس آیت کے معنی یہ بتلائے ہیں گہ آپ سے پہلے نہ بولیں ، اور جب آپ کلام کریں تو سب خموش ہوکر سنیں ۔