دین و شریعت کی بنیادیں اور فقہی اصول و ضابطے ۔ قرآن کی روشنی میں |
|
ایک طویل حدیث نقل کی، جس کے آخر میں ہے کہ ایک عورت نے حضرت صدیقہؓ سے سوال کیا کہ ام المؤمنین! ہمارے کچھ رضاعی رشتہ دار عجمی لوگوں میں سے ہیں ، اور ان کے یہاں تو روز روز کوئی نہ کوئی تہوار ہوتا رہتا ہے، یہ اپنے تہواروں کے دن کچھ ہدیہ تحفہ ہمارے پاس بھی بھیج دیتے ہیں ، ہم اس کوکھائیں یا نہیں ؟ اس پر صدیقہ عائشہؓ نے فرمایا: اَمَّا مَا ذُبِحَ لِذٰلِکَ الْیَوْمِ فَلا تَاْکُلُوْا وَلٰکِنْ کُلُوْا مِنْ اَشْجَارِہِمْ۔ (تفسیر قرطبی ۲؍۲۰۷) جو جانور اس عید کے دن کے لیے ذبح کیا گیا ہو وہ نہ کھاؤ، لیکن ان کے درختوں کے پھل وغیرہ کھاسکتے ہو۔ الغرض یہ صورت ثانیہ جس میں نیت تو تقرب الی غیر اللہ کی ہو مگر ذبح کے وقت اللہ کا نام لیا جائے ، اول تواشتراک علت یعنی نیت تقرب الی غیر اللہ کی وجہ سے مَا اُہِلَّ بِہٖ لِغَیْرِ اﷲِ کے حکم میں ہے، دوسرے آیت وَمَا ذُبِحَ عَلَی النُّصُبِ کابھی مدلول ہے، اس لیے یہ بھی حرام ہے۔ تیسری صورت یہ ہے کہ کسی جانور کو کان کاٹ کر یا کوئی دوسری علامت لگا کر تقرب الی غیر اللہ اور تعظیم غیر اللہ کے لیے چھوڑ دیا جائے، نہ اس سے کام لیں اور نہ اس کے ذبح کرنے کا قصد ہو، بلکہ اس کے ذبح کرنے کو حرام جانیں ، یہ جانورمَا اُہِلَّ بِہٖ لِغَیْرِ اﷲِ اور مَا ذُبِحَ عَلَی النُّصُب دونوں میں داخل نہیں ، بلکہ اس قسم کے جانور کو بحیرہ یا سائبہ وغیرہ کہا جاتا ہے، اور حکم ان کا یہ ہے کہ یہ فعل تو بنصِ قرآن حرام ہے، جیسا کہ مَا جَعَلَ اﷲُ مِنْ بَحِیْرَۃٍ وَّلاَ سَآئِبَۃٍ میں انشاء اللہ آئے گا۔ مگر ان کے اس حرام عمل سے اور اس جانور کو حرام سمجھنے کے عقیدہ سے یہ جانور حرام نہیں ہوجاتا۔ (معارف القرآن ۱؍۴۲۱تا ۴۲۳، سورۂ بقرہ پ۲)