دین و شریعت کی بنیادیں اور فقہی اصول و ضابطے ۔ قرآن کی روشنی میں |
|
زبور، صحف موسیٰ وابراہیم وغیرہ۔ اس لیے وہ قومیں جو کسی ایسی کتاب پر ایمان رکھتی اور اس کو وحی الٰہی قرار دیتی ہوں جس کا کتاب اللہ ہونا قرآن و سنت کے یقینی ذرائع سے ثابت نہیں ، وہ قومیں اہل کتاب میں داخل نہیں ہوں گی جیسے مشرکین مکہ مجوس ، بت پرست ہندو، بدھ، آریہ، سکھ وغیرہ۔ اس سے معلوم ہوا کہ یہود ونصاریٰ جو تورات و انجیل پر ایمان رکھنے والے ہیں ، وہ باصطلاح قرآن اہل کتاب میں داخل ہیں ۔ تیسری ایک قوم جس کو صابئین کہتے ہیں ان کے حالات مشتبہ ہیں ، جن حضرات کے نزدیک یہ لوگ زبور داؤد علیہ السلام پر ایمان رکھتے ہیں وہ ان کو بھی اہل کتاب میں شامل قرار دیتے ہیں ۔ اور جن کو یہ تحقیق ہوا کہ زبور سے ان کا کوئی تعلق نہیں یہ نجوم پرست قوم ہیں ، وہ ان کو بت پرستوں اور مجوس کے ساتھ شریک قرار دیتے ہیں ۔ بہرحال یقینی طور پر جن کو باتفاق اہل کتاب کہا جاتا ہے وہ یہود و نصاریٰ ہیں ، تو قرآن حکیم کے اس حکم کا حاصل یہ ہوا کہ یہود ونصاری کا ذبیحہ مسلمانوں کے لیے اور مسلمانوں کا ذبیحہ ان کے لیے حلال ہے۔ اب رہا یہ معاملہ کہ یہود ونصاریٰ کو اہل کتاب کہنے اور سمجھنے کے لیے کیا یہ شرط ہے کہ وہ صحیح طور پر اصلی تورات و انجیل پر عمل رکھتے ہوں ، یا محرّف تورات، اور انجیل کا اتباع کرنے والے اور عیسیٰ و مریم علیہما السلام کوخدا کا شریک قرار دینے والے بھی اہل کتاب میں داخل ہیں ، سو قرآن کریم کی بے شمار تصریحات سے واضح ہے کہ اہل کتاب ہونے کے لیے صرف اتنی بات کافی ہے کہ وہ کسی آسمانی کتاب کے قائل ہوں اور اس کی اتباع کرنے کے دعویدار ہوں ۔ خواہ وہ اس کے اتباع میں کتنی گمراہیوں میں جاپڑے ہوں ۔ قرآن کریم نے جن کو اہل کتاب کا لقب دیا انہیں کے بارے میں یہ بھی جابجا ارشاد فرمایا کہ یہ لوگ اپنی آسمانی کتابوں میں تحریف کرتے ہیں ۔ یُحَرِّفُوْنَ الْکَلِمَ عَنْ