دین و شریعت کی بنیادیں اور فقہی اصول و ضابطے ۔ قرآن کی روشنی میں |
|
نیز اس صورت کی حرمت کے لیے ایک مستقل آیت بھی دلیل ہے، یعنی وَمَا ذُبِحَ عَلَی النُّصُبِ، نُصب ان تمام چیزوں کو کہا جاتا ہے جن کی باطل طور پر پرستش کی جاتی ہے معنی یہ ہیں کہ وہ جانور جس کو معبودات باطلہ کے لیے ذبح کیا گیا ہے، اس سے پہلے وَمَا اُہِلَّ بِہٖ لِغَیْرِ اﷲِ کا ذکر ہے ، اس سے معلوم ہوتا ہے کہ ما اہل کا مدلول صریح تو وہی جانور ہے جس پر بوقت ذبح غیر اللہ کا نام لیا گیا، اور ذُبِحَ عَلَی النُّصُبِ اس کے بالمقابل آیا ہے جس میں غیر اللہ کے نام لینے کا ذکر نہیں ، صرف بتوں وغیرہ کی خوشنودی کی نیت سے ذبح کرنا مراد ہے، اس میں وہ جانور بھی داخل ہیں جن کو ذبح تو کیا گیا ہے غیر اللہ کے تقرب کے لیے مگر بوقت ذبح اس پر اللہ کا نام لیا گیا ہے۔ (افادہ شیخی حکیم الامتؒ) امام قرطبی نے اپنی تفسیر میں اسی کو اختیار کیا ہے ان کی عبارت یہ ہے: وجرت عادۃ العرب بالصیاح باسم المقصود بالذبیحۃ وغلب ذٰلک فی استعمالہم حتی عبَّر بہ عن النیۃ اللتی ہی علۃ التحریم۔ (تفسیر قرطبی ۲؍۳۰۷) عرب کی عادت تھی کہ جس کے لیے ذبح کرنا مقصود ہوتا ذبح کرنے کے وقت اس کا نام بلند آواز سے پکارتے اور یہ رواج ان میں عام تھا یہاں تک کہ اس آیت میں تقرب الی غیر اللہ کو جو کہ اصل علت تحریم ہے، اِہلال کے لفظ سے تعبیر کردیا۔ امام قرطبیؒ نے اپنی اس تحقیق کی بنیاد صحابۂ کرام میں سے دو حضرات حضرت علی مرتضیٰ رضی اللہ عنہ اور حضرت صدیقہ عائشہ رضی اللہ عنہا کے فتاوی پر رکھی ہے۔ حضرت علی کرم اللہ وجہہ کے زمانہ میں فرزدق شاعر کے باپ غالب نے ایک اونٹ ذبح کیا تھا جس پر کسی غیر اللہ کا نام لینے کا کوئی ذکر نہیں ، مگر حضرت علی کرم اللہ وجہہ نے اس کو بھی مَا اُہِلَّ بِہٖ میں داخل قرار دے کر حرام فرمایا، اور سب صحابۂ کرام نے اس کو قبول کیا، اسی طرح امام مسلم کے شیخ یحییٰ بن یحییٰ کی سند سے صدیقہ عائشہ رضی اللہ عنہا کی