دین و شریعت کی بنیادیں اور فقہی اصول و ضابطے ۔ قرآن کی روشنی میں |
|
اس کا خون بہانے سے تقرب الی غیر اللہ مقصود ہو، لیکن بوقت ذبح اس پر نام اللہ ہی کا لیا جائے جیسے بہت سے ناواقف مسلمان بزرگوں ، پیروں کے نام پر ان کی خوشنودی حاصل کرنے کے لیے بکرے، مرغے وغیرہ ذبح کرتے ہیں لیکن ذبح کے وقت اس پر نام اللہ ہی کا پکارتے ہیں ، یہ صورت بھی باتفاق فقہاء حرام اور مذبوحہ مردار ہے۔ مگر تخریج دلیل میں کچھ اختلاف ہے، بعض حضرات مفسرین وفقہاء نے اس کو بھی ما اُہل بہ لغیر اللہ کا مدلول صریح قرار دیا ہے جیسا کہ حواشی بیضاوی میں ہے: فکل ما نودی علیہ بغیر اسم اﷲ فہو حرام وان ذبح باسم اﷲ تعالی حیث اجمع العلماء لو ان مسلماً ذبح ذبیحۃ وقصد بذبحہ التقرب الی غیر اﷲ صار مرتدا، وذبیحتہ ذبیحۃ مرتد۔ ہر وہ جانور جس کو غیر اللہ کے نام کردیا گیا وہ حرام ہے اگر چہ بوقت ذبح اللہ ہی کا نام لیا ہو اس لیے کہ علماء، فقہاء کا اتفاق ہے کہ کسی جانور کو غیر اللہ کے تقرب کے لیے اگر کوئی مسلمان ذبح کرے تو وہ مرتد ہوجاوے گا، اور اس کا ذبیحہ مرتد کا ذبیحہ کہلائے گا۔ نیز در مختار کتاب الذبائح میں ہے: ذبح بقدوم الامیر نحوہ کواحد من العظماء یحرم لانہ أہل بہٖ لغیر اﷲ ولو ذکر اسم اﷲ، واقرہ الشامی ۵؍۲۱۴۔ کسی امیر یا بڑے کے آنے پر جانور ذبح کیا تو وہ حرام ہوگا کیونکہ وہ ما اہل بہ لغیر اﷲ میں داخل ہے، اگر چہ بوقت ذبح اللہ ہی کا نام لیا ہو، اور شامی نے اس کی تائید کی۔ اور بعض حضرات نے اس صورت کو مَا اُہِلَّ بِہٖ لِغَیْرِ اﷲِ کا مدلول صریح تو نہیں بنایا کیونکہ وہ بحیثیت عربیت تکلف سے خالی نہیں ، مگر بوجہ اشتراک علت یعنی تقرب الی غیر اللہ کی نیت کے اس کو بھی مَا اُہِلَّ بِہٖ لِغَیْرِ اﷲِ کے ساتھ ملحق کرکے حرام قرار دیا ہے، احقر کے نزدیک یہی وجہ احوط اور اسلم ہے۔