دین و شریعت کی بنیادیں اور فقہی اصول و ضابطے ۔ قرآن کی روشنی میں |
|
الدین وارادۃ التکذیب بالرسالۃ کما تجرد کفر ابلیس عن قصد التکذیب بالربوبیۃ۔ جیسا کہ ارتداد بغیر اس کے بھی ہوسکتا ہے کہ حق تعالیٰ یا اس کے رسول کی شان میں سب و شتم سے پیش آوے اسی طرح بغیر اس کے بھی ارتداد متحقق ہوسکتا ہے، کہ آدمی تبدیل مذہب کا یا تکذیب رسول کا قصد کرے جیسا کہ ابلیس لعین کا کفر تکذیب ربوبیت سے خالی ہے۔ الغرض ارتداد صرف اسی کو نہیں کہتے کہ کوئی شخص اپنا مذہب بدل دے یا صاف طور پر خدا ورسول کا منکر ہوجائے بلکہ ضروریاتِ دین کا انکار کرنا اور قطعی الثبوت والدلالۃ احکام میں سے کسی ایک کا بعد علم انکار کردینا بھی اسی درجہ کا ارتداد اور کفر ہے۔تنبیہ: ہاں اس جگہ دو باتیں قابل خیال ہیں اول تو یہ کہ کفر وارتداد اس صورت میں عائد ہوتاہے جب کہ حکم قطعی کے تسلیم کرنے سے انکار اور گردن کشی کرے اور اس حکم کے واجب التعمیل ہونے کا عقیدہ نہ رکھے، لیکن اگر کوئی شخص حکم کو تو واجب التعمیل سمجھتا ہے مگر غفلت یا شرارت کی وجہ سے اس پر عمل نہیں کرتا، تواس کو کفر وارتداد نہ کہا جائے گا اگر چہ ساری عمر میں ایک دفعہ بھی اس حکم پر عمل کرنے کی نوبت نہ آئے بلکہ اس شخص کو مسلمان ہی سمجھا جائے گا، اور پہلی صورت میں کہ کسی حکم قطعی کو واجب التعمیل ہی نہیں جانتا اگر چہ کسی وجہ سے وہ ساری عمر اس پر عمل بھی کرتا رہے،تو بھی کافر ومرتد قرار دیا جائے گا، مثلاً ایک شخص پانچوں وقت کی نماز کا شدت کے ساتھ پابند ہے مگر فرض اور واجب التعمیل نہیں جانتا یہ کافر ہے اور دوسرا شخص جو فرض جانتا ہے مگر کبھی نہیں پڑھتا وہ مسلمان ہے، اگر چہ فاسق و فاجر اور سخت گناہ گار ہے۔