دین و شریعت کی بنیادیں اور فقہی اصول و ضابطے ۔ قرآن کی روشنی میں |
|
اور ضروریات اور قطعیات کے حکم میں یہ فرق ہے، کہ ضروریاتِ دین کا انکار باجماع امت مطلقاً کفر ہے، ناواقفیت و جہالت کو اس میں عذر نہ قرار دیا جائے گا، اور نہ کسی کی تاویل سنی جائے گی۔ اور قطعیاتِ محضہ جوشہرت میں اس درجہ کو نہیں پہنچتے تو حنفیہ کے نزدیک اس میں یہ تفصیل ہے کہ اگر کوئی عامی آدمی بوجہ ناواقفیت و جہالت کے ان کا انکار کر بیٹھے تو ابھی اس کے کفر و ارتداد کا حکم نہ کیا جائے گا، بلکہ پہلے اس کو تبلیغ کی جائے گی کہ یہ حکم اسلام کے قطعی الثبوت اور قطعی الدلالت احکام میں سے ہے اس کا انکار کفرہے۔ اس کے بعد بھی اگر وہ اپنے انکار پر قائم رہے تب کفر کا حکم کیا جائے گا۔ کما فی المسایرۃ والمسامرۃ لابن الہمام ولفظہ واما ما ثبت قطعاً ولم یبلغ حد الضرورۃ کاستحقاق بنت الابن السدس مع البنت الصلبیۃ باجماع المسلمین فظاہر کلام الحنفیۃ الاکفار یجحدہ بانہم لم یشترطوا فی الإکفار سوی القطع فی الثبوت (الی قولہ) ویجب حملہ علی ما اذا علم المنکر ثبوتہ قطعاً۔ (مسامرہ ص:۱۴۹) اور جو حکم قطعی الثبوت تو ہو مگر ضرورت کی حد کو نہ پہنچا ہو جیسے (میراث میں ) اگر پوتی اوربیٹی حقیقی جمع ہوں تو پوتی کو چھٹا حصہ ملنے کا حکم اجماع امت سے ثابت ہے، سو ظاہر کلام حنفیہ کا یہ ہے کہ اس کے انکار کی وجہ سے کفرکا حکم کیاجائے کیونکہ انہوں نے قطعی الثبوت ہونے کے سوا اور کوئی شرط نہیں لگائی (الی قولہ) مگر واجب ہے کہ حنفیہ کے اس کلام کو اس صورت پر محمول کیا جائے کہ جب منکر کو اس کا علم ہو کہ یہ حکم قطعی الثبوت ہے۔ خلاصہ کلام یہ ہے کہ جس طرح کفر وارتداد کی ایک قسم تبدیل مذہب ہے اسی طرح دوسری قسم یہ بھی ہے کہ ضروریاتِ دین اور قطعیاتِ اسلام میں سے کسی چیز کا انکار کردیا جائے یا ضروریات دین میں کوئی ایسی تاویل کی جائے جس سے ان کے معروف