دین و شریعت کی بنیادیں اور فقہی اصول و ضابطے ۔ قرآن کی روشنی میں |
|
حقیقت یہ ہے کہ رسول کے تمام احکام کو ٹھنڈے دل سے تسلیم کیا جائے اور اس میں کسی قسم کا پس و پیش یا تردد نہ کیا جائے۔ اور جب ایمان کی حقیقت معلوم ہوگئی تو کفر و ارتداد کی صورت بھی واضح ہوگئی کیونکہ جس چیز کے ماننے اور تسلیم کرنے کا نام ایمان ہے اسی کے نہ ماننے اور انکار کرنے کا نام کفر و ارتداد ہے (صرّح بہ فی شرح المقاصد) اور ایمان و کفر کی مذکورہ تعریف سے یہ بھی ثابت ہوگیا کہ کفر صرف اسی کا نام نہیں کہ کوئی شخص اللہ تعالیٰ یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کوسرے سے نہ مانے، بلکہ یہ بھی اسی درجہ کا کفرا ور نہ ماننے کا ایک شعبہ ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے جو احکام قطعی و یقینی طور پر ثابت ہیں ان میں سے کسی ایک حکم کے تسلیم کرنے سے (یہ سمجھتے ہوئے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا حکم ہے) انکار کردیا جائے اگر چہ باقی سب احکام کو تسلیم کرے اور پورے اہتمام سے سب پر عامل بھی ہو۔ اور وجہ یہ ہے کہ کفر وارتداد حضرت مالک الملک و الملکوت کی بغاوت کا نام ہے اور سب جانتے ہیں کہ بغاوت جس طرح بادشاہ کے تمام احکام کی نافرمانی اور مقابلہ پر کھڑے ہوجانے کو کہتے ہیں ، اسی طرح یہ بھی بغاوت ہی سمجھی جاتی ہے کہ کسی ایک قانونِ شاہی کی قانون شکنی کی جائے اگر چہ باقی سب احکام کو تسلیم کرلے۔ شیطان ابلیس جو دنیا میں سب سے بڑا کافر اور کافر گر ہے اس کا کفر بھی اسی دوسری قسم کا کفر ہے کیونکہ اس نے بھی نہ تبدیل مذہب کیا نہ خدا تعالیٰ کے وجود قدرت وغیرہ کا انکار کیا نہ ربوبیت سے منکر ہوا صرف ایک حکم سے سرتابی کی جس کی وجہ سے ابدالآباد کے لیے مطرود وملعون ہوگیا۔ حافظ ابن تیمیہ الصارم المسلول ص:۳۶۷ میں فرماتے ہیں : کما أن الردۃ تتجرد عن السب فکذلک تتجرد عن قصد تبدیل