دین و شریعت کی بنیادیں اور فقہی اصول و ضابطے ۔ قرآن کی روشنی میں |
|
اسی لیے محسوسات و مشاہدات میں کسی کے قول کی تصدیق کرنے کو ایمان نہیں کہتے مثلاً کوئی شخص سفید کپڑے کو سفید یا سیاہ کو سیاہ کہہ رہا ہے اور دوسرا اس کی تصدیق کرتا ہے اس کو تصدیق کرنا تو کہیں گے ایمان لانا نہیں کہا جائے گا، کیونکہ اس تصدیق میں قائل کے اعتماد کو کوئی دخل نہیں ، بلکہ یہ تصدیق مشاہدہ کی بناء پر ہے اوراصطلاح شرع میں خبر رسول کو ایمان بالغیب کی حقیقت اور ایمان مجمل و مفصل بغیر مشاہدہ کے محض رسول کے اعتماد پر یقینی طور سے مان لینے کا نام ایمان ہے، لفظ غیب لغت میں ایسی چیزوں کے لیے بولا جاتا ہے جو نہ بدیہی طور پر انسان کو معلوم ہوں ، اور نہ انسان کے حواس خمسہ اس کا پتہ لگا سکیں ، یعنی نہ وہ آنکھ سے نظر آئیں نہ کان سے سنائی دیں نہ ناک سے سونگھ کر یا زبان سے چکھ کر ان کا علم ہوسکے، اور نہ ہاتھ سے چھوکر ان کو معلوم کیا جاسکے۔ قرآن میں لفظ غیب سے وہ تمام چیزیں مراد ہیں جن کی خبر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دی ہے اور ان کا علم بداہت عقل اور حواس خمسہ کے ذریعہ نہیں ہوسکتا اس میں اللہ تعالیٰ کی ذات و صفات بھی آجاتی ہیں ، تقدیر امور، جنت دوزخ کے حالات، قیامت اور اس میں پیش آنے والے واقعات بھی فرشتے، تمام آسمانی کتابیں اور تمام انبیاء سابقین بھی، جس کی تفصیل اسی سورہ بقرہ کے ختم پر آمن الرسول میں بیان کی گئی ہے، گویا یہاں ایمان مجمل کا بیان ہوا ہے، اور آخری آیت میں ایمان مفصل کا۔ تو اب ایمان بالغیب کے معنی یہ ہوگئے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جو ہدایات و تعلیمات لے کر آئے ہیں ان سب کو یقینی طور پر دل سے ماننا، شرط یہ ہے کہ اس تعلیم کا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے منقول ہونا قطعی طور پر ثابت ہو، جمہور اہل اسلام کے نزدیک ایمان کی یہی تعریف ہے۔ (عقیدہ طحاوی، عقائد نسفی وغیرہ) اس تعریف میں ماننے کا نام ایمان بتلایا گیا ہے، اس سے یہ بھی معلوم ہوگیا کہ محض جاننے کو ایمان نہیں کہتے کیونکہ جہاں تک جاننے کا تعلق ہے وہ تو ابلیس و شیطان