دین و شریعت کی بنیادیں اور فقہی اصول و ضابطے ۔ قرآن کی روشنی میں |
|
یعنی اگر بالفرض آج حضرت موسی علیہ السلام بھی زندہ ہوتے تو ان کو میرے اتباع کے سوا کوئی چارہ نہ ہوتا۔ تو اب کسی کا یہ کہنا کہ ہر مذہب والے اپنے اپنے مذہب پرعمل کریں تو بغیر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان لائے، اور بغیر مسلمان ہوئے، وہ جنت اور فلاح آخرت پاسکتے ہیں ۔ قرآن کریم کی مذکورہ آیات کی کھلی مخالفت ہے۔ اس کے علاوہ اگر ہر مذہب و ملت ایسی چیز ہے کہ اس پر ہر زمانہ میں عمل کرلینا نجات اور فلاح کے لیے کافی ہے، تو پھر خاتم الانبیاء صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت اور نزول قرآن ہی بے معنی ہوجاتا ہے، اور ایک شریعت کے بعد دوسری شریعت بھیجنا فضول ہوجاتا ہے، سب سے پہلا رسول ایک شریعت ایک کتاب لے آتا، وہ کافی تھی دوسرے رسولوں کتابوں شریعتوں کے بھیجنے کی کیا ضرورت تھی، زیادہ سے زیادہ ایسے لوگوں کا وجود کافی ہوتا جو اس شریعت و کتاب کو باقی رکھنے اور اس پر عمل کرنے اور کرانے کا اہتمام کراتے جو عام طور پر ہر امت کے علماء کا فریضہ رہا ہے، اور اس صورت میں قرآن کریم کا یہ ارشاد کہ ’’لِکُلٍّ جَعَلْنَا مِنْکُمْ شِرْعَۃً وَّمِنْہَاجًا‘‘ یعنی ہم نے تم میں سے ہرا مت کے لیے ایک خاص شریعت اور خاص راستہ بنایا ہے، یہ سب بے معنی ہوجاتا ہے۔ اور پھر اس کا کیا جواز رہ جاتا ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے اوپر اور اپنی کتاب قرآن پر ایمان نہ رکھنے والے تمام یہود و نصاری سے اور دوسری قوموں سے نہ صرف تبلیغی جہاد کیا، بلکہ قتل و قتال اور سیف و سنان کی جنگیں بھی لڑی اور اگر انسان کے مومن اور مقبول عند اللہ ہونے کے لیے صرف اللہ پر اور روزِ آخرت پر ایمان لے آنا کافی ہو تو بیچارہ ابلیس کس جرم میں مردود ہوتا کیا اس کو اللہ پر ایمان نہ تھا؟ یا وہ روزِ آخرت اورقیامت کا منکر تھا؟ اس نے تو عین حالت غضب میں بھی ’’اِلٰی یُوْمِ یُّبْعَثُوْنْ‘‘ کہہ کر ایمان بالآخرت کا اقرار کیا ہے۔