دین و شریعت کی بنیادیں اور فقہی اصول و ضابطے ۔ قرآن کی روشنی میں |
|
ہے رسولوں پر ایمان شرط نجات نہیں اور یہ نہ سمجھ سکے کہ قرآن کی اصطلاح میں ایمان باللہ وہی معتبر ہے جو ایمان بالرسول کے ساتھ ہو، ورنہ محض خدا کے اقرار اور توحید کا تو شیطان بھی قائل ہے، قرآن کریم نے خود اس حقیقت کو ان الفاظ میں واضح فرمادیا ہے۔ ’’فَاِنْ اٰمَنُوْا بِمِثْلِ مَا اٰمَنْتُمْ بِہِ فَقَدِ اہْتَدَوْا وَاِنْ تَوَلَّوْا فَاِنَّمَاہُمْ فِیْ شِقَاقٍ فَسَیَکْفِیْکَہُمُ اللّٰہُ وَہُوَ السَّمِیْعُ الْعَلِیْمُ‘‘۔ (سورہ بقرہ پ:۱) یعنی ان کا ایمان اس وقت معتبر ہوگا جب کہ وہ عام مسلمانوں کی طرح ایمان اختیار کریں جس میں ایمان باللہ کے ساتھ ایمان بالرسول لازم ہے، ورنہ پھر سمجھ لو کہ وہی لوگ تفرقہ اور اختلاف پیدا کرنا چاہتے ہیں ، سو اللہ تعالیٰ آپ کی طرف سے ان کے لیے کافی ہے اور وہ بہت سننے والا جاننے والا ہے۔ اور پیش نظر آیات میں تو اس سے بھی زیادہ وضاحت کے ساتھ بتلادیا گیا ہے کہ جو شخص اللہ کے کسی ایک رسول کا بھی منکر ہو وہ کھلا کافر ہے۔ اور اس کے لیے عذاب جہنم ہے، ایمان باللہ وہی معتبر ہے جو ایمان بالرسول کے ساتھ ہو، اس کے بغیر اس کو ایمان باللہ کہنا بھی صحیح نہیں ہے۔ آخری آیت میں پھر ایجابی طور پر بیان فرمادیا گیا ہے کہ نجات آخرت انہی لوگوں کا حصہ ہے جو اللہ تعالیٰ کے ساتھ اس کے سب رسولوں پر بھی ایمان رکھیں اسی لیے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے: اِنَّ القُرْآنَ یُفَسِّرُ بَعْضُہٗ بَعْضًا۔ یعنی قرآن کا ایک حصہ دوسرے حصہ کی تفسیر و تشریح کرتا ہے۔ خود قرآنی تفسیر کے خلاف کوئی تفسیر کرنا کسی کے لیے جائز نہیں ۔ (معارف ۲؍۵۹۶، سورہ نساء پ۶)