دین و شریعت کی بنیادیں اور فقہی اصول و ضابطے ۔ قرآن کی روشنی میں |
|
تقلید شخصی ہے۔ نیز حجۃ اللہ ہی میں فرماتے ہیں : وکان إبراہیم وأصحابہ یرون ابن مسعودؓ وأصحابہ أثبت الناس فی الفقہ۔ یعنی حضرت ابراہیم نخعیؒ اور ان کے تلامذہ حضرت عبد اللہ بن مسعود اور ان کے تلامذہ کو فقہ میں اثبت الناس سمجھتے، محل خلاف میں انہیں کے قول کو ترجیح دیتے تھے اور تقلید شخصی کا کوئی اس سے زائد مفہوم نہیں ۔ اور ابو داؤد مجتبائی ص:۶۸ میں ہے: عن عمرو بن میمون قال: قدم علینا معاذ بالیمن رسول رسول اللہ إلی قولہ فألقیت محبتی علیہ فما فارقتہ حتی دفنتہ بالشام میتا ثم نظرت إلی أفقہ الناس بعدہ فاتیت ابن مسعودؓ فلزمتہ حتی مات الحدیث۔ یعنی عمرو بن میمون کہتے ہیں کہ جب معاذ بن جبلؓ یمن میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے قاصد ہوکر تشریف لائے تو میں نے ان سے محبت کی اور اس وقت تک جدا نہیں ہوا جب تک کہ ان کو شام میں دفن کرلیا۔ اس کے بعد میں نے دیکھا کہ اب افقہ الناس کون ہے، تو حضرت عبد اللہ بن مسعود کے پاس آیا اور ان کی خدمت میں رہا یہاں تک کہ ان کا بھی انتقال ہوگیا۔ الحاصل تقلید زمانہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم میں ہوئی، آپ کے حکم سے ہوئی اور پھر صحابہ میں ہمیشہ رہی، بعض حضرات نے مطلق تقلید سے کام لیا بعض نے تقلید شخصی سے۔ باقی رہا آپ کا یہ سوال تقلید کیوں ہوئی؟ تو اول تو جب یہ ثابت ہوگیا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کا امر فرمایا جمہور صحابہ نے اس پر عمل کیا تو پھر ایک مسلمان کے لیے اس سوال کی گنجائش نہیں رہتی کہ یہ ’’کیوں ہوئی‘‘ علاوہ بریں اس کی حکمت کچھ مخفی بھی نہیں کیونکہ تقلید کا حال علوم دینیہ میں بالکل ایسا ہی ہے جیسا کہ علوم