دین و شریعت کی بنیادیں اور فقہی اصول و ضابطے ۔ قرآن کی روشنی میں |
|
کرنا) یہ علماء اہل سنۃ والجماعۃ کے نزدیک واجب ہے کیونکہ مطلق تقلید جس کی فرضیت عند الفریقین مسلم ہے اس کے دو فرد ہیں ، شخصی اور غیر شخصی اس لیے جائز ہوا کہ اس مطلق فرض کو اس کے جس فرد میں چاہیں ادا کردیں ، تقلید غیر شخصی کرکے بھی اس فریضہ سے ایسے ہی بری ہوسکیں جیسے تقلید شخصی کرکے بری ہوتے ہیں ۔ کیونکہ مامور بہ جب مطلق ہوتا ہے تو لاعلی التعیین اس کے فرد کو ادا کردینے سے امور بری الذمہ ہوجاتا ہے دیکھو اگر کوئی شخص اپنے خادم کو حکم کرے کہ کسی آدمی کو بلالو تو وہ مختار ہے چاہے زید کو بلالے یا عمرکو یا بکر وغیرہ کو اوروہ جس کو بلالے گا اپنے فرض منصبی سے بری الذمہ ہوجائے گا۔ اسی لیے چونکہ ماموربنص قرآن مطلق تقلید ہے اور اس کے دو فرد ہیں ، صحابہ اور تابعین رضی اللہ عنہم کے زمانہ میں دونوں فرد پر عمل ہوتا رہا کوئی تقلید شخصی کرتا تھا اور کوئی غیر شخصی تقلید شخصی کرنے والے غیر شخصی کرنے والوں پر کوئی گرفت نہ کرتے، اور علیٰ ہذا تقلید غیر شخصی کرنے والے شخصی کرنے والوں کو باطل پر نہ سمجھتے تھے، جس کو انشاء اللہ تعالیٰ عنقریب روایات سے مشاہد کرکے دکھلایا جائے گا۔ الغرض دونوں قسم کی تقلید زمانہ صحابہ و تابعین میں ہوتی رہی لیکن جب دوسری صدی کے اخیرمیں دیکھا گیا کہ مذاہب مجتہدین کے بکثرت پیدا ہوگئے، بہت کم احکام ایسے باقی رہے جن کے حرمت وجواز میں یا کراہت و استحباب وغیرہ میں خلاف نہ ہو۔ ادھر ابنائے زمانہ میں ہواوہوس کا غلبہ دیکھا گیا، وہ رخصتوں کو تلاش کرنے لگے جس امام مجتہد کا جو مسئلہ اپنی خواہش کے موافق ملا اس کو اختیار کرلیا اورباقی کو پس پشت ڈال دیا، یہاں تک کہ اندیشہ ہوگیا کہ یہ دین متین ایک خواہشات کا مجموعہ بن جائے اور بجائے اس کے کہ مسلمان اپنے دین کا اتباع کریں ۔ اب یہ دین کو اپنی خواہش کے تابع بنالیں گے اس لیے اس زمانہ کے زیرک اور دوراندیش علماء نے اس ضرورت کو محسوس کیا کہ اب