دین و شریعت کی بنیادیں اور فقہی اصول و ضابطے ۔ قرآن کی روشنی میں |
|
الإحاطۃ بجمیع لغات العرب وینبغی أن یتخرج فیہا بحیث یقف علی مرام کلام العرب فیما یدل علی المراد من اختلاف المحال والأحوال لأن الخطاب ورد بلسان العرب فمن لم یعرف لا یقف علی مراد الشارع ویعرف أقاویل الصحابۃ والتابعین فی الأحکام ومعظم فتاوی فقہاء الأمۃ حتی لا یقع حکمہ مخالفاً لأقوالہم فیکون فیہ خرق الإجماع واذا عرف من کل من ہذہ الأنواع معظمۃ فہو حینئذ مجتہد ولا یشترط معرفۃ جمیعہا بحیث لا یشذعنہ شیء منہا وإذا لم یعرف نوعا من ہذہ الأنواع فسبیلہ التقلید وان کان مستبحرا فی مذہب واحد من آحاد أئمۃ السلف فلا یجوز لہ تقلد القضآء ولا الترصد للفتیا نہ اس کے سوا اور حدیثوں کا جاننا جن میں حکایات اور اخبار اور نصائح مذکور ہیں ، اسی طرح زبان عربی کے ان الفاظ کا جاننا واجب ہے جو قرآن خواہ حدیث کے احکامی امور میں واقع ہوئے ہیں ، نہ یہ کہ سب لغت عربی کو جانے اور بہتر یہ ہے کہ لغت دانی میں اتنی محنت کرے کہ عرب کے کلام کے مقصود سے واقف ہوجائے اس طرح کہ اختلاف مواقع اور حالات کی وجہ سے کلام مذکور سے یہ مراد ہوتی ہے اس لیے کہ خطاب شریعت عربی زبان میں وارد ہوا ہے تو جو شخص عربی نہ جانے گا وہ شارع علیہ السلام کا مقصود نہ پہچانے گا اور اقوال صحابہ اور تابعین میں سے اس قدر جانے جو درباب احکام منقول ہیں اور بڑا حصہ ان فتوؤں کا جانے جو امت کے فقہاء نے دئیے ہیں ، تاکہ اس کا حکم مخالف سلف کے اقوال کے نہ پڑے ورنہ اس صورت میں اجماع کی مخالفت ہوگی، اور جب ان پانچوں اقسام کے علموں میں سے بڑا حصہ جانتا