دین و شریعت کی بنیادیں اور فقہی اصول و ضابطے ۔ قرآن کی روشنی میں |
یہی ہے، مختلف طریقوں سے ہر شخص اتنی تحقیق کرلیتا ہے کہ ان میں کون سا وکیل اچھا جاننے والا اور قابل اعتماد ہے، اس کو اپنا وکیل بنا لیتا ہے اور دوسرے وکلا کو باوجود اختلاف کے دشمن نہیں سمجھتا، برا بھلا نہیں کہتا اس سے لڑتا نہیں پھرتا۔ یہی فطری اور سہل اصول اختلافِ علماء کے وقت کیوں اختیار نہیں کیا جاتا۔ یہاں ایک بات یہ بھی سن لی جائے کہ بیماری اور مقدمے کے معاملات میں تو اگر آپ نے کسی غلط ڈاکٹر یا غیر معتمد وکیل پر اعتماد کرکے اپنا معاملہ اس کے حوالے کردیا تو اس کا جو نقصان پہنچنا ہے وہ آپ کو ضرور پہنچے گا، مگر علماء کے اختلاف میں اس نقصان کا بھی خطرہ نہیں ۔ حدیث میں ہے کہ کسی شخص نے اگر کسی عالم سے سوال کیا اور اس نے فتویٰ غلط دے دیا تو اس کا گناہ سوال کرنے والے پر نہیں ، بلکہ فتویٰ دینے والے پر ہے، شرط یہ ہے کہ سوال اس شخص سے کیا گیا ہو جس کا عالم ہونا آپ نے ایسی ہی تحقیق و جستجو کے ذریعے معلوم کیا ہو جو اچھے معالج اور اچھے وکیل کی تلاش میں آپ کیا کرتے ہیں ، اپنی مقدور بھر صحیح عالم کی تلاش و جستجو کرکے آپ نے ان کے قول پر عمل کرلیا، تو آپ اللہ کے نزدیک بری ہوگئے۔ اگر اس نے غلط بھی بتادیا ہے تو آپ پر اس کا کوئی نقصان یا الزام نہیں ۔ ہاں یہ نہ ہونا چاہئے کہ ڈاکٹر کی تلاش میں تو آپ اس کا ایم بی، بی ، ایس ہونا بھی معلوم کریں ، اور یہ بھی کہ اس کے مطب میں کس طرح کے مریض زیادہ شفایاب ہوتے ہیں ، مگر عالم کی تلاش میں صرف عمامے ، کرتے اور ڈاڑھی کو یا زیادہ سے زیادہ جلسے میں کچھ بول لینے کو معیار بنالیں ۔ اگر آپ نے ایسا کیا تو آپ اپنی ذمے داری سے بری نہیں ، اس نے جواب میں کوئی غلطی کی تو آپ بھی اس کے مجرم قرار پائیں گے۔ (وحدت امت، جواہر الفقہ ۱؍۴۴۷)