دین و شریعت کی بنیادیں اور فقہی اصول و ضابطے ۔ قرآن کی روشنی میں |
|
کان پر جُوں نہیں رینگتی تو اس کی کیا توقع کی جاسکتی ہے کہ فروعی بحثیں ہم اخلاص کے ساتھ اللہ تعالیٰ کے لیے کررہے ہیں ، اگر ان میں کچھ للہیت اور اخلاص ہوتا تو ہم ان حالات کے تحت اسلام اور دین کے تقاضوں کو پہنچانتے اور فروع سے زیادہ اصولِ اسلام کی حفاظت میں لگے ہوتے، ہم نے تو گویا علمی اور دینی خدمات کو انہیں فروعی مباحث میں منحصر سمجھ رکھا ہے اور سعی و عمل کی پوری توانائی اسی پر لگارکھی ہے، اسلام کے اصولی اور بنیادی مسائل اور ایمان کی سرحدوں کو دشمنوں کی یلغار کے لیے خالی چھوڑ دیا ہے، لڑنا کس محاذ پر چاہئے تھا اور ہم نے طاقت کس محاذ پر لگادی۔ انا ﷲ وانا الیہ راجعون۔ یہ تو تحزّب و تعصّب کے غلو کا نتیجہ ہے۔ اسی کے ساتھ دوسری بھاری غلطی ان اجتہادی مسائل میں اختلاف کے حدود کو توڑ کر تفرق و تشتّت اور جنگ و جدل اور ایک دوسرے کے ساتھ تمسخر و استہزاء تک پہنچ جانا ہے جو کسی شریعت و ملت میں روانہیں اور افسوس ہے کہ یہ سب کچھ خدمتِ علم دین کے نام پر کیا جاتا ہے اور جب یہ معاملہ ان علماء کے متبعین عوام تک پہنچتا ہے تو وہ اس لڑائی کو ایک جہاد قرار دے کر لڑتے ہیں اور یہ ظاہر ہے کہ جس قوم کا جہاد خود اپنے ہی دست وبازو سے ہونے لگے اس کو کسی غنیم کی مدافعت اور کفر و الحاد کے ساتھ جنگ کی فرصت کہاں ۔ قرآن و حدیث میں اسی تجازو عن الحدود کا نام تفرق ہے، جو جائز اختلاف رائے سے الگ ایک چیز ہے، قرآن میں ایک جگہ ارشاد ہے: وَاعْتَصِمُوْا بِحَبْلِ اﷲِ جَمِیْعاً وَ لا تَفَرَّقُوْا۔ (آل عمران پ۴) اور تم اللہ تعالیٰ کی رسی کو مضبوطی سے پکڑے رہو، سارے کے سارے اور نہ تم تفرقہ ڈالو۔ دوسری جگہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے ایک وصیت کا ذکر ہے جو تمام انبیاء سابقین کو