دین و شریعت کی بنیادیں اور فقہی اصول و ضابطے ۔ قرآن کی روشنی میں |
|
ہے جو بچ نکلے۔ اسلام اور قرآن کا نام لینے والے مسلمان آج سارے جرائم اور بد اخلاقیوں میں ڈوبے ہوئے ہیں ، ہمارے بازار جھوٹ، فریب، سود، قمار سے بھرے ہوئے ہیں ، اور ان کے چلانے والے کوئی یہودی نہیں ، ہندو بنئے نہیں ، اسلام کے نام لیوا ہیں ، ہمارے سرکاری محکمے رشوت ظلم و جور ، کام چوری، بے رحمی اور سخت دلی کی تربیت گاہیں بنے ہوئے ہیں ، اور ان کے کارفرما بھی نہ انگریز ہیں ، نہ ہندو، محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم کے نام لینے والے، روزِ آخرت پر ایمان کا دعویٰ رکھنے والے ہیں ، ہمارے عوام علم دین سے کورے، جہالتوں میں ڈوبے ہوئے، دین کے فرائض و واجبات سے بے گانہ، مشرکانہ رسموں اور کھیل تماشوں کے دلدادہ ہیں ۔ ان حالات میں کیا ہم پر یہ واجب نہیں کہ ہم غور وفکر سے کام لیں ، اور سوچیں کہ اس وقت ہمارے آقا رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا مطالبہ اور توقع اہل علم سے کیا ہوگی؟ اور اگر محشر میں آپ نے ہم سے سوال کرلیا کہ میرے دین اور شریعت پر اس طرح کے حملے ہورہے تھے، میری امت اس بدحالی میں مبتلا تھی ، تم وراثت نبوت کے دعویدار کہاں تھے؟ تم نے اس وراثت کا کیا حق ادا کیا؟ تو کیا ہمارا یہ جواب کافی ہوجائے گا کہ ہم نے رفع یدین کے مسئلہ پر ایک کتاب لکھی تھی یا کچھ طلبہ کوشرح جامی کی بحث حاصل و محصول خوب سمجھائی تھی، یا حدیث میں آنے والے اجتہادی مسائل پر بڑی دلچسپ تقریریں کی تھیں ، یا صحافیانہ زورِ قلم اور فقرہ بازی کے ذریعہ دوسرے علماء و فضلاء کو خوب ذلیل کیا تھا۔ فروعی اور اجتہادی مسائل میں بحث و تمحیص گو مذموم چیز نہیں اگر وہ اپنی حد کے اندر اخلاص سے اللہ کے لیے ہوتی، لیکن جہاں ہم یہ دیکھ رہے ہوں کہ اسلام و ایمان کی بنیادیں متزلزل کردینے والے فتنوں کی خبر ہم سنتے ہیں اللہ ورسول کے احکام کی خلاف روزی بلکہ استہزاء و تمسخر اپنے آنکھوں سے دیکھتے اور کانوں سے سنتے ہیں مگر ہمارے