دین و شریعت کی بنیادیں اور فقہی اصول و ضابطے ۔ قرآن کی روشنی میں |
|
کی گئی ہے اس کے الفاظ یہ ہیں : اَنْ اَقِیْمُوا الدِّیْنَ وَلاَتَتَفَرَّقُوْا فِیْہ۔ (پ۲۵) امام تفسیر ابو العالیہؒ نے فرمایا کہ اقامت دین سے مراد اخلاص ہے اور لاتتفرقوا کا مطلب یہ ہے کہ آپس میں عداوت نہ کرو، بھائی بھائی بن کر رہو۔ اس وصیت کے بعد قرآن میں بنی اسرائیل کے تفرق کا بیان کرکے اہل اسلام کو متنبہ کیا گیا ہے کہ وہ ان کے طریقہ پر نہ جائیں ، اس میں ارشاد ہے: وَمَا َتفَرَّقُوْا اِلَّا مِنْ بَعْدِ مَاجَآئَ ہُمُ الْعِلْمُ بَغْیًا بَّیْنَہُمْ۔ حضرت ابو العالیہؒ نے اس کی تفسیر میں فرمایا کہ لفظ بغیا بینہم میں اشارہ ہے کہ ایسے اختلاف کا عداوت اور جنگ و جدل تک پہنچنا کبھی دین کے سبب سے نہیں ہوتا بلکہ بغیا علی الدنیا و ملکہا وزخرفہا وزینتہا وسلطانہا ۔(جامع العلم ۲؍۸۴) یعنی یہ عداوت جب بھی غور کرو تو اس کا سبب دنیا، حُبِّ مال یا حب جاہ ہوتا ہے جس کو نفس و شیطان خدمت دین کا عنوان دے کر مزین کردیتا ہے ورنہ اس طرح کے مسائل میں اختلاف رائے کی حدوہی ہے جو پہلے بیان ہوچکی ہے کہ مثبت طور پر اپنے عمل کے لیے ایک جانب کو اصلح سمجھ کر اختیار کرلیں ، اور اس سے مختلف مسلک رکھنے والوں سے لڑتے نہ پھریں ، جس طرح دنیا میں انسان جب بیمار ہوتا ہے اپنے معالجہ کے لیے کسی ایک حکیم یا ڈاکٹر کا انتخاب کرکے صرف اسی کے قول پر بھروسہ کرتا ہے اور اسی کی ہدایات پر عمل کرتا ہے، مگر دوسرے ڈاکٹروں کو برا بھلا کہتا نہیں پھر تا، ایک مقدمہ میں آپ کسی ایک شخص کو وکیل بنا کر اپنا مقدمہ اس کے سپرد کردیتے ہیں مگر دوسرے وکلاء سے لڑتے نہیں پھرتے، اجتہادی مختلف فیہ مسائل میں بھی ٹھیک یہی آپ کا طرز عمل ہونا چاہئے۔ (وحدت امت، جواہر الفقہ ۱؍۴۱۶، مطبوعہ پاکستان)