دین و شریعت کی بنیادیں اور فقہی اصول و ضابطے ۔ قرآن کی روشنی میں |
|
مجتہدین میں چلے آئے ہیں ۔ ان مسائل میں جو اختلافات صحابہ کرام میں پیش آچکے ہیں ، ان کو مٹانے کے معنی اس کے سوا نہیں ہوسکتے کہ صحابہ کرام کی کسی ایک جماعت کو باطل پر قرار دیا جائے، جو نصوص حدیث اور ارشاداتِ قرآنی کے بالکل خلاف ہے، اسی لیے حافظ شمس الدین ذہبی نے فرمایا ہے کہ جس مسئلے میں اختلاف صحابہ کرام کے درمیان ہوچکا ہے اس کو بالکل ختم کردینا ممکن نہیں ۔ اسی کے ساتھ صحابہ و تابعین اور ائمۂ مجتہدین کے دور کی وہ تاریخ بھی سامنے رکھنا ضروری ہے کہ تعبیر کتاب و سنت کے ما تحت جو ان میں اختلاف رائے پیش آیا ہے اس پوری تاریخ میں ایک واقعہ بھی ایسا نہیں کہ اس نے جنگ و جدال کی صورت اختیار کی ہو، باہمی اختلاف مسائل کے باوجود ایک دوسرے کے پیچھے نماز پڑھنا ا ور تمام برادرانہ تعلقات قائم رہنا اس پوری تاریخ کا اعلیٰ شاہکار ہے۔ سیاسی مسائل میں مشاجرات صحابہ کا فتنہ ، تکوینی حکمتوں کے ما تحت پیش آیا، آپس میں تلواریں بھی چل گئیں ، مگر عین اسی فتنہ کی ابتداء میں جب امام مظلوم حضرت عثمان غنیؓ باغیوں کے نرغے میں محصور تھے اور یہی باغی نمازوں میں امامت کرتے تھے تو امام مظلوم نے مسلمانوں کو ان کی اقتداء میں نماز پڑھنے کی ہدایت فرمائی، اور عام ضابطہ یہ بتادیا کہ: ’’اذا ہم احسنوا فأحسن معہم وإن ہم أساوا فاجتنب إساء تہم‘‘۔ یعنی جب وہ لوگ کوئی نیک کام کریں اس میں ان کے ساتھ تعاون کرو اور جب کوئی برا اور غلط کام کریں اس سے اجتناب کرو۔ اس ہدایت کے ذریعہ اپنی جان پر کھیل کر مسلمانوں کو قرآنی ارشاد: ’’وَتَعَاوَنُوْا عَلَی البِّرِّ وَالتَّقْویٰ وَلَا تَعَاوَنُوْا عَلَی الْاِثْمِ وَالْعُدْوَانِ‘‘ کی صحیح تفسیر بتادی اور باہمی انتشار وافتراق کا دروازہ بند کردیا۔