دین و شریعت کی بنیادیں اور فقہی اصول و ضابطے ۔ قرآن کی روشنی میں |
|
ان بزرگوں نے اس کو تسلیم کیا، حضرت قعقاع نے جاکر امیرا لمؤمنین کو اس کی اطلاع دے دی، وہ بھی بہت مسرور ہوئے اور مطمئن ہوگئے، اور سب لوگوں نے واپسی کا قصد کرلیا، اور تین روز اس میدان میں قیام اس حال پر رہا کہ کسی کو اس میں شک نہیں تھا کہ اب دونوں فریقوں میں مصالحت کا اعلان ہوجائے گا، اور چوتھے دن صبح کو یہ اعلان ہونے والا تھا اور حضرت امیر المؤمنین کی ملاقات حضرت طلحہؓ وزبیرؓ کے ساتھ ہونے والی تھی جس میں یہ قاتلان عثمان غنی شریک نہیں تھے، یہ چیز ان لوگوں پر سخت گراں گذری، اورا نہوں نے یہ منصوبہ بنایا کہ تم اول حضرت عائشہ کی جماعت میں پہنچ کر قتل و غارت گری شروع کردو، تاکہ وہ اور ان کے ساتھی یہ سمجھیں کہ حضرت علی کرم اللہ وجہہ کی طرف سے عہد شکنی ہوئی، اور یہ لوگ اس غلط فہمی کا شکار ہوکر حضرت علیؓ کے لشکر پر ٹوٹ پڑیں ، ان کی یہ شیطانی چال چل گئی، اور حضرت علی کرم اللہ وجہہ کے لشکر میں شامل ہونے والے مفسدین کی طرف سے جب حضرت صدیقہؓ کی جماعت پر حملہ ہوگیا تو وہ سمجھنے میں معذور تھے کہ یہ حملہ امیر المؤمنین کے لشکر کی طرف سے ہوا ہے، اس کی جوابی کارروائی شروع ہوگئی، حضرت علی کرم اللہ وجہہ نے یہ ماجرا دیکھا تو قتال کے سوا چارہ نہ رہا، اور جو حادثہ باہمی قتل وقتال کا پیش آنا تھا آگیا، انا للہ وانا الیہ راجعون یہ واقعہ ٹھیک اسی طرح طبری اور دوسرے ثقات مؤرخین نے حضرت حسن اور حضرت عبد اللہ بن جعفر اور عبد اللہ بن عباس وغیرہ رضی اللہ عنہم کی روایت سے نقل کیا ہے۔ (روح المعانی) غرض مفسدین و مجرمین کی شرارت اور فتنہ انگیزی کے نتیجہ میں ان دونوں مقدس گروہوں میں غیر شعوری طور پر قتال کا واقعہ پیش آگیا، اور جب فتنہ فرو ہوا تو دونوں ہی حضرات اس پر سخت غمگین ہوئے حضرت عائشہؓ کو یہ واقعہ یاد آجاتا تو اتنا روتی تھیں کہ ان کا دوپٹہ آنسؤوں سے تر ہوجاتا تھا، اسی طرح حضرت امیر المؤمنین علی مرتضیٰ کو بھی اس واقعہ پر سخت صدمہ پیش آیا۔ فتنہ فرو ہونے کے بعد مقتولین کی لاشوں کو دیکھنے کے